نیوزی لینڈ (جیوڈیسک) نیوزی لینڈ حکومت نے مساجد میں مسلمانوں کی ہلاکت کے بعد عوام سے آتشیں اسلحہ واپس لینا شروع کر دیا ہے۔ عوام رضاکارانہ بنیاد پر اپنے خطرناک ہتھیار پولیس کے پاس جمع کروا رہے ہیں۔
نیوزی لینڈ میں عوام کی طرف سے آتشیں اسلحہ حکومت کو جمع کرانے کے منصوبے کے پہلے مرحلے کو انتہائی کامیاب قرار دیا گیا ہے۔ ہتھیار جمع کرانے کا یہ سلسلہ ہفتہ تیرہ جولائی سے شروع ہوا ہے۔ رواں برس مارچ میں کرائسٹ چرچ شہر کی دو مساجد پر حملوں کے بعد ‘گن کلچر‘ کے خاتمے کی خاطر خاتون وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن نے یہ منصوبہ پیش کیا تھا۔
وزیراعظم نے گن کلچر کے خاتمے کے لیے قانون سازی بھی کی۔ اسی سال اپریل میں نیوزی لینڈ کی پارلیمنٹ نے گن ریفارمز بل کی منظوری دی تھی۔ کرائسٹ چرچ کی مساجد پر حملے میں اکاون نمازیوں کی موت ہوئی تھی اور ان حملوں نے ملکی سماجیات پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔
کرائسٹ چرچ کی پولیس نے ہفتے کے دن بتایا کہ پہلے مرحلے میں 169 افراد نے 224 ممنوعہ ہتھیار پولیس کو جمع کرائے۔ نیوزی لینڈ کی حکومت اس رضا کارانہ واپسی پر اسلحے کے مالکان کو رقوم بھی دے رہی ہے۔ اس ابتدائی مرحلے میں پولیس نے اسلحہ جمع کروانے والوں میں ایک لاکھ چونتیس ہزار امریکی ڈالر تقسیم کیے ہیں۔
رواں برس کے دوران اس طرح کے 258 ایونٹس منعقد کیے جائیں گے، جن میں عوام اپنا اسلحہ حکومت کو ‘فروخت‘ کر دے گی۔ پولیس کے محکمے کے ملکی وزیر اسٹورٹ ناش کا کہنا ہے کہ اسلحہ جمع کرانے کا بنیادی مقصد مختلف طبقوں کو خطرناک ہتھیاروں سے صاف کرنا ہے۔
علاقائی پولیس کے کمانڈر مائیک جونسن کے مطابق کینٹربری کے شہر میں نو سو تین ہتھیار رکھنے والوں نے اپنے ایک ہزار چار سو پندرہ ہتھیار جمع کرنے کے لیے رجسٹریشن کرائی ہے۔ جونسن کے مطابق گن کلچر کے خاتمے میں عوام کی بھرپور شرکت ایک حوصلہ افزا اقدام ہے اور یہ قابل ستائش ہے۔
مائیک جونسن نے مزید کہا کہ نیوزی لینڈ کی پولیس کو یقین ہے کہ اس حکومتی پروگرام کے تحت ملک میں قانون کی پاسداری کرنے والے شہریوں کے پاس موجود آتشیں اسلحے کو واپس لینا ایک اہم کام ہے۔ جونسن نے لوگوں کے مثبت ردعمل کو مثبت عوامی رویہ قرار دیا ہے۔ عام لوگوں کا بھی کہنا ہے کہ انہیں واقعتاً نیم فوجی یا فوجی ہتھیار رکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔