اللہ تعالیٰ نے جب انسان کی تخلیق اور اپنی نیابت دنیا میں عنایت کرنے کا فیصلہ فرشتوں کے بھرپور اجلاس میں کیا تو فرشتوں کی جانب سے واضح کیا گیا کہ انسان جس کی تخلیق مطلوب و مقصود ہے اس کی سرشت میں کشت و خون کا بازار کرنا شامل ہے کہ یہ ممنون و احسان مند ہونے کی بجائے سرکش و طاغی بنتے ہوئے زمین میں فتنہ و فساد بپاکرے گا۔سورہ بقرہ میں مذکور اس ساری رواداد کا خلاصہ اور ماحصل یہ نکلا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔یعنی اگر انسانوں میں سے اکثریت ظالم و جابر اور انسانیت کے نام پر داغ بنے گی تو یہی انسان ہی ہوں گے جوعدل و انصاف،امانت و دیانت اور کائنات کے حسن کو اپنے حسن انتظام و ارادہ سے دوبالا بھی کریگا۔البتہ رب کریم نے انسان کو عالم ارواح کے وعدوں اور مقصد تخلیق پر سختی سے عمل داری پر کاربند رہنے کے لیے انبیاء علیھم السلام مبعوث فرمائے۔ جنہوں نے انسان کو گھٹا ٹوپ اندھیروں اور ظلمتوں سے نکال کر اس کی حیات کو بقع نور بنا دیا۔
اگرچہ قوم عاد، قوم ثمود، قوم نوح،قوم شعیب، بنی اسرائیل وغیرہ اقوام کے پاس جو انبیاء تشریف لائے ان میں سے بہت کم پیغمبروں کی تعلیمات پر ایمان لائے باقیوں نے ناصرف پیغمبروں کی نافرمانی کی بلکہ ان کی تعلیمات کا مذاق اڑانے کے ساتھ خود انبیاء کو طرح طرح کی اذیتیں دیتی رہیں ہیں جس کا نتیجہ ہے کہ وہ اللہ کے دردناک عذاب میں مبتلا کیے گئے۔انسان کی یہ سرکشی پیغمبر آخرالزمان حضرت محمد مصطفیۖ کی بعثت کے بعد بھی جاری رہی ۔تورات ، انجیل اور زبور،صحائف میں آخری نبی کی بشارت موجود ہوتے ہوئے اور جابجا چھٹی صدی عیسوی میں یثرب میں یہود و نصاریٰ کی جانب سے یہ تصور دینے کے نبی کا یہاں ظہور ہوگا۔مگر جب اللہ تعالیٰ نے نبوت کی عظیم ذمہ داری بنی اسحاق و بنی اسرائیل سے لے کر حضرت ابراہیم کے فرزند ارجمند حضرت اسماعیل کی نسل میں منتقل کی تو تمام تر شواہد کے باوجود بھی یہودیوں اور عیسائیوں نے صرف اس لیے آپۖ کی پیروی سے انکار کیا کہ وہ قریش اور بنی اسماعیل میں سے ہیں۔
خاتم النبیینۖ پر ایمان نہ لانا تو ان کا ذاتی مسئلہ تھا اور اس کی سزا سے دوچار آخر ت ہونا پڑتا لیکن یہود و نصاری عرب کے ہوں یا سلطنت روم کے سبھی نے آپۖ کو بہتیرے حیل و حجت اور طرق سے نقصان پہنچانے کی سعی و کوشش کی ۔ تاریخ انسانی شاہد ہے کہ عیسائی و یہودی مذہب کے پیروکاروں کے قلوب و اذہان میں انتقام کا جذبہ اس قدر عروج پر پہنچ چکا تھا کہ جب جب ان کو موقع ملا مسلمانوں سے نبرد آزماہونے کے بعد قیادت و سیادت سنبھالنے کا تو انہوں نے بدترین انداز سے مسلمانوں کی نسل کشی کی۔ باوجود اس کے کہ مسلمانوں نے آفاق پر بارہ سوسال تک تقریباً حکومت کی تو کہیں بھی کسی بھی موقع پر مسلم فاتحین نے یہودی و نصاری اہل کتاب تو درکنار مشرکین و منافقین کو بھی تہہ تیغ نہیں کیا ماسوائے اس کے کہ بقدر جرم ان کو سزائیں ضروردینے کے چونکہ بجز اس کے ریاست اسلام مستحکم ہوہی نہیں سکتی۔اس میں عہدنبوی و عہد خلفاء الراشدین اور اموی،عباسی، سلجوقی، ایوبی، عثمانی عہد اس پر دال ہیں کہ مسلمانوں نے کس طرح غیر مسلموں کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کی ہے۔
تاہم یہود و نصاری نفرت و لغزت کی آگ میں جلنے کی وجہ سے اس قدت کندن بن چکے تھے کہ انہوں نے مسلمانوں کو گزند پہنچانے کے لیے سیاسی و مذہبی اور قومی و علاقائی عصبیت کو مجتمع کرتے ہوئے صلیبی جنگ کی داغ بیل ڈالی اس کے نتیجہ میںآٹھ سے زائد حملے کیے گئے جب انہی کامیابی ملی تو مسلمانوں کا بدترین قتل عام کیا اور انسانیت سوزمظالم سے عورتوں اور بچوں کو بھی گذارا گیا لیکن فاتح بیت المقدس سلطان صلاح الدین ایوبی نے جب صلیبیوں سے عرض مقدس واگزار کرائی تو وہاں علاوہ ان کے کسی کو زک نہیں لگی جو میدان جنگ میں کسی طور شریک ہوا۔برطانیہ و فرانس ،اٹلی و یورپ نے جب نشاة ثانیہ حاصل کی اور خلافت اسلامیہ عثمانیہ کے بستر کو لپیٹ دیا تو اس کے بعد انہوں نے ایک بار پھر مسلمانوں کو اپنی سازشوں اور چیرہ دستیوں کا نشانہ بنایا باوجود اس کے کہ مغرب کی اس جدید ترقی کے محرک و مصدر اول مسلمان ہی ہیں کہ جن سے انہوں نے اندلس و قرطبہ میں سکالرشپ پر تعلیم حاصل کرکے یہ عروج پایا۔
جب سے عیسائی و یہودی مذہب کے ماننے والوں نے دنیاکی زمام اقتدار سنبھالی ہے اس کا بغیر عصبیت کے مطالعہ کیا جائے تو واضح معلوم ہوجاتاہے کہ انہوں نے اس کائنات کواور اس میں بسنے والے انسانوں کو مادی ترقی تو ضروردی ہے کہ جہاز،ٹیکنالوجی، ایٹم، آسائش و راحت ،علاج و معالجہ کے جدید ذرائع ایجاد کرلیے لیکن دوسری جانب خدا کی بستی کو ایک دکان سمجھتے ہوئے اپنے سے کمزور کو مسل دینے کی کوشش برابر جاری رکھی کہ عراق وفلسطین، شام و عراق ،ہیروشیما،ناگاساکی، ہولوکاسٹ جیسی خونی داستانیں پڑھ کر انسان کو خوف آنے لگتا ہے کہ انسان ہی انسان کا اور اپنے گھر یعنی زمین کا اس قدر دشمن بھی ہو سکتا ہے۔
اسی کا تسلسل ہے کہ فلسطین ، عراق و شام اور افغانستان و کشمیر میں جہاں مسلمانوں کا قتل عام صرف اس لیے کیا گیا کہ وہ مسلمان ملک ہیں اور اسلام کو دنیا بھر میں غالب کرنے کا عزم رکھتے بذریعہ دعوت اور حکومت ۔اسلام کا یہ آفاقی پیغام ہے کہ ہر مظلوم کا ساتھ دینا ہے اور ظالم کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن جانا ہے ۔ مسلمانوں کی اس عالمی سوچ سے مغرب خوف زدہ ہے۔زندگی کے حقیقی سکون سے دور نکل جانے کی وجہ سے خود اہل مغرب دارین کی خوشنودی کے حصول کے لیے جوق درجوق حلقہ بگوش اسلام ہورہے ہیں تو اب ان کو پھروہی خطرہ محسوس ہونے لگا ہے کہ ان کے ہاتھ میں صرف ایمان کی دولت ہے اور اس کے ذریعہ یہ ہم سے پیش قدمی کررہے ہیں اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو چھٹی ساتویں صدی کا سا ایک تاریک دور مغرب کو دیکھنا پڑ سکتا ہے۔
اسی انتقامی آگ کا شاخسانہ ہے کہ مغرب صلیبی حملوں کا ایک بار پھر آغاز کرنے کی منصوبہ بندی کررہاہے اس نے فلسطین پر قبضہ کر رکھا ہے،عراق و فلسطین اور افغانستان کو خاک و خون میں لت پت کرنے کے باوجود اس کو سکون نہیں مل رہاتو اسی سبب انہوں نے اب دہشت گردی و سفاکی کو شعار بناتے ہوئے برطانیہ ،امریکہ دیگر ممالک کے بعد اب نیوزی لینڈ میں 15مارچ 2019جمعہ کو خون کی ایسی خوفناک ہولی کھیلی ہے کہ نماز جمعہ اداکرنے والے نمازیوں کو حالت نماز میں ہی شہید کردیا گیا۔ تشویشناک بات تو یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ اس جرم کی پردہ داری کی جاتی ایک حملہ آور اس ساری کارروائی کو فیس بک پر نشر کرتارہا۔دومسجدوں میں یہ صلیبی حملے ہوئے اور ان میں 50 سے زائد مسلمان شہید ہوئے ۔ اس سب کے باوجود اطمینان کی بات یہ ہے کہ مسلمان شہادت کی موت کو سینہ پر سجالینے کے بعد پھر بھی اس کا ربط و تعلق اللہ کے دین کی پیروی سے نہیں کٹا اور انہوں نے انہی مساجد میں نماز عصر ادا کی۔
نیوزی لینڈ اور یورپ میں مسلمانوں کے خلاف جوسازشیں تیار ہورہی ہیں ان سے کوئی فرد ناواقف نہیں ہے۔ تاہم عیسائی و یہودیوں کے نمک خوار موم بتی مافیا اب عنقا ہوگئے ہیں کہ اگر یورپ میں ایک اینٹ بھی اپنی جگہ سے ہل جائے تو اس کو اس قدر الیکڑانک و پرنٹ میڈیا اور عوامی مقامات پر اس ضرور کے ساتھ اجاگر کرتے ہیں کہ دنیا میں ناختم ہونے والا طوفان آگیا ہے اور اس کی آڑ میں مسلمانوں کے ملکوں کے ملک کو تہہ بالا کردیا جاتاہے۔ مگر اب وہ سب امن کی آشا چلانے والے سب ناپید ہیں ،اقوام متحدہ ،یورپ کے تمام ترنفرت و تعصب کا نشانہ مسلمان ناکردہ جرم کی سزا میں تو بنے مگر خود مغرب میں جاری سالوں سے مسلمان دشمنی اور نسل کشی کا کوئی بھی امن کا پیمبر آواز اٹھانے کو تیار نہیں ہے ۔یہ منافقانہ اور دوہرارویہ انسانوں کی اس وسیع و عریض بستی میں گھنے جنگل میں ایک چنگاری لگادینے کہ مترادف ہے اور ناجانے اس کا انجام کیا ہوگا۔ اگر مسلمان کے ہاتھ سے ایک مغربی قتل ہوجائے تو وہ دہشت گردی بن جاتاہے اور اگر منظم منصوبہ بندی کے ساتھ بیک وقت 5سے زائد لوگ دومسجدوں میں 50سے زائد لوگوں کو شہید کردیں تو اس کو بدحواس،ذہنی مریض و پاگل قراردیکر چھپانے کی کوشش کی جائے ۔یہ کیسا نظام انصاف ہے؟؟
مسلمان شہادت کو اپنے لیے سعادت سمجھتاہے اور راہ خدا میں بحالت نماز اگر جان جان آفریں کے سپرد ہوجائے تو اس سے بڑھ کر سعادت کیا ہوگی۔لیکن قتل بازاری کا یہ سلسلہ خود انسانوں کی اس بستی کے لیے نقصان دہ ہے اور اس پر سنجیدگی کے ساتھ اقوام عالم کو بالعمو م اور بالخصوص مغرب کو اپنے دوہرے معیار پر غور کرنا ہوگا وگرنہ مسلمان یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ یہ صلیبی حملوں کی تیاری ہورہی ہے اور مسلمان ملکوں اور خود مسلمانوں کو اس کے لیے ہمہ وقت تیار رہنا ہوگا۔نیوزی لینڈ کے اس واقعہ کی مذمت اور آزادانہ تحقیقات کے لیے 58اسلامی ممالک اپنا بھر پورسفارتی کردار اداکریں۔اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے جو میرے دین پر کاربند ہوگا اور اس کی نشر و اشاعت اور اس پر عمل کرکے مدد کرے گا تو اللہ جل شانہ ضرور اس کو دنیا پر غلبہ عنایت کرے گا۔اللہ تعالیٰ تمام شہدا کی شہادتوں کو قبول اور تمام مسلمانوں کی حفاظت اور اسلام کی سربلندی کا انتظام پیدا فرمائے۔آمین