”نیوزی لینڈ”جنوبی بحرالکاہل میں پولی نیشیا کی سب سے بڑی ریاست ہے۔آسٹریلیا کے جنوب مشرق میں واقع یہ ریاست بہت بڑی اور پھیلی ہوئی کھلی زمینوں پر مشتمل بہت سے جزائر کامجموعہ ہے۔اس کے دوبڑے بڑے حصے شمالی اور جنوبی جزیرے ہیں جنہیں بحرالکاہل کی مختصر سی پٹی باہم جدا کرتی ہے اور ان کے علاوہ چھوٹے بڑے جزائرکی ایک بہت بڑی تعدادہے جن میں سے بعض اصل نیوزی لینڈ سے سینکڑوں میل کے فاصلے پر واقع ہونے کے باوجوداس ریاست کا حصہ ہیں۔”ولنگٹن”یہاں کا دارالحکومت ہے۔چاروں طرف سمندر ہونے کے باعث معتدل آب و ہواکا مالک نیوزی لینڈ لمبائی کے رخ کی مملکت ہے جو کم و بیش ایک ہزارمیل لمبی اور 280میل چوڑی جزائری پٹی پر مشتمل ہے ۔یہاں کی اکثریت عیسائی مذہب کی پیروکار ہے تاہم دوسرے مذہب کی ایک تعدادبھی موجود ہے جبکہ ایک چوتھائی آبادی کو کسی مذہب سے کوئی سروکار نہیں۔انگریزی اور ”ماوری”دوزبانوں کو دفتری زبان ہونے کا درجہ حاصل ہے ۔”پولی نیشیا”یونانی زبان کاایک مرکب ہے ”پولی”کا مطلب ”بہت سے”اور ”نیشیا”کا مطلب ”جزائر”ہے۔
اس لفظ سے وہ اقوام مراد لی جاتی ہیں جو سمندر میں بکھرے ہوئے جزائر میں سکونت پزیر ہیں۔نیوزی لینڈ کے قدیم باشندے مشرقی پولینیشین تھے جن کے بارے میں غالب گمان ہے کہ وہ سرزمین فرانس سے 800ء کے لگ بھگ یااس سے قبل یہاں نئی زمینوں کی تلاش میں آئے تھے۔یہاں آکرصدیوں کی گرد میںوہ اپنے ماضی کو بھلا بیٹھے تاآنکہ یورپی سیاحوں اور ملاحوں نے انہیں دوبارہ دریافت کرلیا۔یہ1642ء کی بات ہے جب ایک ڈچ شہری یہاں پہچاتواس وقت نیوزی لینڈ میں آباد لوگوں کی تعداد بمشکل ایک لاکھ سے دو لاکھ کے درمیان تھی،اس وقت تک اس سرزمین اور اس میں بسنے والے قبائل کا کوئی نام نہ تھا ،بس”ماوری”کالفظ وہ اپنے لیے بولتے تھے جو بعد میں انکی بولی جانے والی زبان کے لیے مختص ہوگیا۔
یورپی اقوام کو یہ علاقہ پسند آیا اور وہاں دھڑادھڑآباد ہونے لگے،یہاں تک کہ 1840ء میں برطانیہ نے اس سرزمین کا انتظامی کنٹرول سنبھال لیااوراسے ”کراؤن کالونی”قرار دے دیاگیا۔ تاریخ نے وہ دن بھی دیکھے کہ جب یہاں کی مقامی آبادی کم اور یورپ سے آئے ہوئے لوگ تعداد میں بڑھ گئے۔1890کی دھائی میں نیوزی لینڈ کے مقامی باشندوں نے اپنی تنظیم”نیوزی لینڈ نیٹوزایسوسی ایشن(نیوزی لینڈ کے مقامی باشندوں کی تنظیم)”کی بنا ڈالی اور 26 ستمبر 1907 کو یہ ملک برطانوی تسلط سے جزوی طور پر آزاد ہوا۔1920ء سے نیوزی لینڈ اپنی داخلہ اورخارجہ پالیسیوںمیں کافی حد تک آزاد تھاتاہم آزادی کی تکمیل 1947میں ہی جاکر ہوئی۔ نیوزی لینڈ نے دونوں عالمی جنگوں میں بڑا بھرپور کردار ادا کیا اور عالمی معاملات سمیت اقوام متحدہ میں نیوزی لینڈ اب دنیاکاایک اہم ملک سمجھاجاتاہے۔نیوزی لینڈقدرت کا شاہکار اور کرہ ارضی کا خوبصورت ملک ہے۔یہاں بہت سی غاریں،چھوٹے بڑے پہاڑی سلسلے ،ندی،نالے ،آبشاریں اور خوبصورت جھیلیں ہیں۔صرف جنوبی حصے میں 360گلیشئرزہیں،سب سے بڑا گلیشئر18میل لمبااور ڈیڑھ میل چوڑا ہے۔یہاں بہت سے دریا ہیں جو ایک دوسرے میں ضم ہوتے ہوئے بہت خوبصورت نظار ہ پیش کرتے ہیں۔نیوزی لینڈکی جغرافیائی صورتحال کے پیش نظر دریاؤں کے بہاؤ نے بہت سی خوبصورت جھیلیں بنا دی ہیں ،اکثر جھیلوں سے بجلی کی پیداوار کاکام بھی لیا جاتا ہے اور بعض شہروں کے باہر بجلی کی پیداوار کے لیے مصنوعی جھیلیں بھی بنائی گئی ہیں۔ملک کی بڑی بڑی چراگاہیں ان سب پر مستزاد ہیں۔یہاں زلزلے بھی بہت آتے ہیں ۔
یہاں کی اوسط عمرمردوں میں 76سال اورعورتوں میں 81سال ہے،اتنی لمبی عمر شہریوں کی خوشحالی کا پتہ دیتی ہے۔آبادی میں اضافے کی شرح 1%سے بھی کم ہے جبکہ اموات کی زیادہ تر وجہ کینسر اور سانس کی تکلیف ہے۔زراعت،جنگلات اورمچھلی بانی یہاں کی مشہور صنعتیں ہیں۔چراگاہوں کے باعث جانوروں کی افزائش قدرتی طور پر آسان ہے چنانچہ بھیڑ اور گائے کی نسلیں یہاں تیزی سے پروان چڑھتی ہیں یہی وجہ ہے کہ گوشت ،دوددھ ،مکھن اور پنیرکی فراہمی میں نیوزی لینڈ دنیامیں صف اول کے ممالک میں شمار ہوتا ہے۔لکڑی،کوئلہ،سونا،لوہا اور گیس کے ذخائر بھی اس سرزمین کی تہوں میں پوشیدہ ہیں۔سیاحت کوبھی نیوزی لینڈکی معیشیت میں ایک اہم مقام حاصل ہے۔نیوزی لینڈمیں برطانوی طرز کاپارلیمانی سیاسی نظام رائج ہے۔یہاں کی پارلیمنٹ تین سالوں کے لیے منتخب ہوتی ہے۔نیشنل پارٹی اور لیبر پارٹی،دو ہی پارٹیاں ہیں جو زیادہ نشستیں جیت جاتی ہے وہی حکومت بناتی ہے۔حکومت کا سربراہ وزیراعظم کہلاتاہے اوراسکی معاونت کے لیے اسکی کابینہ کے اراکین اسکے یمین و یسار موجود ہوتے ہیں۔برطانوی فرمانروا یہاں کا اعزازی حکمران ہوتاہے،جو مقامی حکومت کے مشورے سے پانچ سالوں کے لیے محدوداختیارات کااپنا گورنرجنرل یہاں تعینات کرتاہے۔چھوٹے شہروں اور قصبوں دیہاتوں میں مقامی حکومتوں کانظام قائم ہے جو بہت حد تک مرکزی حکومت پر ہی دارومدارکرتی ہیں تاہم مقامی طور پر انہیں کافی اختیارات میسر ہوتے ہیں۔دوسرے ملکوں کی طرح یہاں بھی حکومت کے بہت ساے ذیلی ادارے ہیں جو کاروبار ریاست میں حکومت کے ممدومعاون ہیں۔
6سے سولہ سال کی عمر تک تعلیم لازمی ہے اور مفت ہے۔ایک منتخب ادارہ مدارس کے نظام کا ذمہ دارہوتاہے۔اکثر نجی ادارے اور مذہبی ادارے بھی اپنے اپنے تعلیمی و تربیتی اداروں کا نظام چلاتے ہیں اور حکومت وقت انہیں مالی مددبھی فراہم کرتی ہے۔ابتدائی تعلیمی اداروں میں اگرچہ بچے اور بچیاں اکٹھے پڑھتے ہیں لیکن اکثرثانوی تعلیمی ادارے لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے علیحدہ علیحدہ ہیں۔21سال کی عمر کے بعد وہاں یونیورسٹیوں میں داخلہ ممکن ہوتا ہے ۔ان کے علاوہ فنی تعلیم کے بھی بہت سے ادارے موجود ہیں۔ دوردراز کے علاقوں کے رہنے والوں کے لیے فاصلاتی نظام تعلیم کے تحت کام کرنے والے تعلیمی ادارے بھی موجود ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اس ملک میںشرح خواندگی 99% ہے۔نیوزی لینڈکی ثقافت پر مغربیت غالب ہے ،اسکی وجہ وہاں پر مغربی اقوام کی غالب اکثریت ہے۔جبکہ وہاں کے مقامی ”ماوری”قوم کے لوگ اپنا الگ ثقافتی پس منظر رکھتے ہیں ،خاص نیوزی لینڈمیں انہیں اگرچہ اپنی تہذیب کو بچانے میں کافی دقت ہے لیکن دوردرازکے جزائر میں انکی مقامی روایات آج بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔کوئین ایلزبتھ ٹوآرٹس کونسل وہاں پر مغربی برطانوی تہذیب کے پرچار کے لیے بہت بھاری رقوم بھی فراہم کرتی ہے۔یہاں کی مقامی تہذیب کے تحفظ کے لیے بہت سارے عجائب گھر بھی بنائے گئے ہیں۔
نیوزی لینڈ میں اولین مسلمانوں کی آمد کا سراغ 1870میں ملتاہے،یہ مسلمان چینی نژاد تھے اور سونے کی کانوں میں سے سونا نکالنے کاکام کرتے تھے۔1900میں تین مسلمان خاندان اس سرزمین پر وارد ہوئے جوہندوستانی گجرات سے تعلق رکھتے تھے۔1950میں نیوزی لینڈ مسلم ایسوسی ایشن(MZMA)کے نام سے مسلمانوں کی اجتماعیت وجود میں آئی،1951میں مشرقی یورپ سے ساٹھ کی تعدادمیں کچھ مہاجرمسلمان یہاں پہنچے ۔ان گجراتی اوریورپی مسلمانوں نے مل کر1959میں ایک مکان خریدااور یوں مسلمانوں کے پہلے اسلامی مرکزکی داغ بیل پڑی۔اب”انٹرنیشنل مسلم ایسوسی ایشن آف نیوزی لینڈ”کے نام سے مسلمانوں کی تنظیم وہاں متحرک ہے۔1967میں اس تنظیم کی بنیاد پر کام شروع ہوا،1968میں اسکا آئین تیار ہوا اوراس تنظیم کو 1969ء کو مقامی قانون کے مطابق رجسٹرڈ کرایاگیا۔اس تنظیم کے ارکان اسکولوں ،کالجوں اور بعض اوقات پولیس اسٹیشنوں میں بھی درس و تدریس کاکام کرتے ہیں۔
Muslims in New Zealand
کچھ اراکین مستقل طور پر اس تنظیم کے ساتھ ہیں اور کچھ کو وقتی طور پر ضرورت پڑنے پہ بلا لیاجاتا ہے۔وہاں کے مسلمانوں نے ایک طویل جدوجہد کے بعدبہت سے ادروں کے اجازت نامے سے کچھ عرصہ قبل ایک اسلامک سنٹر بھی بنایا ہے جو تبلیغی مقاصد کے لیے اورمسلمانوں کے اجتماعی معاملات کے لیے مرکزیے کی حیثیت رکھتاہے۔2006ء کی مردم شماری کے مطابق یہاں مسلمانوں کی تعداد چھتیس ہزار سے متجاوز ہے اور تب سے گزشتہ پانچ سالوں میں یہ اضافہ 52.6%زیادہ ہے اس طرح فی الوقت یہ تعدادساٹھ ہزار کے لگ بھگ ہے اور اسلام یہاں کا تیسرا بڑا مذہب ہے اور بعض شہروں میں مسلمانوں کی کثیر تعداد کے باعث یہ شرح دوسرے بڑے مذہب تک پہنچ جاتی ہے۔،یہاں کے تمام بڑے شہروں میںگیارہ مساجد قائم ہیں اورمسلمانوں کے دو بڑے بڑے تعلیمی ادارے ،”المدینہ ”اور ”زید کالج برائے طالبات”سمیت کل بیس اسلامی مراکزبھی کام کررہے ہیں۔نیوزی لینڈ میں مسلمان نوجوانوں نے بھی اپنی تنظیم بنارکھی ہے جس میں کلیات وجامعات کے طلبہ شامل ہیں اور تدریسی و تعلیمی اشغال کے علاوہ کھیلوں اور نوجوانوں کے دیگرامور بھی اس تنظیم نے اپنے ذمہ لے رکھے ہیں۔”ڈونیڈن”نامی شہر میں ”مسجد الہدی ”اس پورے جغرافیائی خطے کا سب سے بڑا مرکز اسلام ہے ۔رمضان اور عیدین کے مواقع پرتمام مسلمان مل کر اپنی دینی تقریبات منعقد کرتے ہیںاور تب یہ تعداد بعض اوقات دس ہزار سے بھی متجاوز ہوتی ہے۔