11 ستمبر 2001ء میں امریکہ کے ٹریڈسنٹر میں ہونے والے نائین الیون کے افسوسناک واقعہ کے بعد دنیا میں دہشتگردی کی لہر دوڑ گئی یہ آج کی جدید دنیا میں ایک نئی طرز کی جنگ تھی جو سرحدوں کی بجائے ملکوں کے اندر لڑی جانے لگی اس کا سب سے زیادہ شکار پاکستان ہوا دہشتگردی کیخلاف پاکستان کو اربوں ڈالرز کے نقصان ہونے کے علاوہ اس پرائی جنگ میں ہمارے 70 ہزار سے زیادہ بیگناہ شہری اور سیکیورٹی اداروں کے جوان شہید ہوئے دہشتگردی کے یہ واقعات روزانہ کی بنیاد پر ہوتے تھے جس کے نتیجے میں روزانہ سینکڑوں بیگناہ لوگ لقمہ اجل بن جاتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ کچھ عرصہ سے دہشتگردی کے ان واقعات میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے اور پاکستان میں امن قائم ہو رہا ہے یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی لیکن اب پاک فوج اور عسکری اداروں کی بے پناہ قربانیوں اور کاروائیوں کے نتیجے میں دہشتگردوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے اور وہ تتر بتر ہو چکے ہیں۔
دہشتگردی کی حالیہ افسوسناک کاروائی دنیا کے پرامن ترین ملکوں میں شمار کیے جانے والے ترقی یافتہ ملک نیوزی لینڈ میں 15 مارچ کو ہوئی جہاں ایک سفیدفام انتہاپسند دہشتگرد نے نماز جمعہ کی ادائیگی کے دوران نہتے نمازیوں پر خودکار اسلحہ سے فائرنگ کی جس کے نتیجے میں پچاس کے قریب بیگناہ مسلمان شہید ہوگئے ان میں بڑی تعداد پاکستانی نژاد شہریوں کی تھی اس المناک واقعہ کے وقت بنگلہ دیشی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی بھی مسجد میں موجود تھے جو خوش قسمتی سے محفوظ رہے اس واقعہ نے جہاں پوری دنیا خاص طور پر ترقی یافتہ پرامن ممالک کو لرزا کر رکھ دیا وہیں پر اس واقعہ نے ایک تو پاکستان کے اس موقف کی تائید کردی کہ دہشتگرد کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور یہ کہیں بھی ہوسکتی ہے یہ صرف پاکستان کا مسئلہ نہیںبلکہ اس سے پوری دنیا کے امن کو خطرہ ہے دہشتگردی کیخلاف پوری دنیا کو متحد ہونا چاہیے۔
نیوزی لینڈ پولیس نے کرائس چرچ کی النور مسجد میں خونریزی کے المناک واقعے کے چند گھنٹوں میں دہشتگرد کو گرفتار کرکے اسے عدالت میں پیش کردیا۔ بلکہ اس واقعہ کی مکمل تحقیقا ت کے لیے نیوزی لینڈ حکومت کی طرف سے رائل کمیشن بنا دیا گیا ہے جو انتہائی سنگین ترین معاملات کی تحقیق کے لیے بنایا جاتا ہے دنیا بھر میں دہشتگردی کے اس مذموم واقعے کی پرزور مُذمت کی گئی نیوزی لینڈ قوم اس المناک واقعہ کیخلاف سراپا احتجاج ہے اس سلسلے میں 29 مارچ کو پورے نیوزی لینڈ میں دہشتگردی کی مذمت اور شہیدوں کیساتھ اظہار یکجتی کا دن منایا جائے گا۔
نیوزی لینڈ خاص طور پر وزیراعظم جیسینڈا آرڈن نے انتہائی بروقت اور تدبر کیساتھ دہشتگردی کا شکار ہونے والے بیگناہ شہیدوں کیساتھ گہری ہمدردی اور دلجوئی کا اظہار کیا اسے پوری دنیا میں سراہا گیا۔نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسینڈر آرڈن ایک ذہین خاتون ہیںانھوں نے شہید ہونے والے شہریوں کیساتھ اظہار ہمدردی کرتے ہوئے کہا کہ وہ دہشتگرد کا نام نہیں لیں گی اس نے یہ سب کچھ شہرت حاصل کرنے کے لیے کیا لیکن وہ دہشتگرد ہے یہ چاہتا تھا کہ دنیا اس کا نام یاد رکھے لیکن کبھی بھی اس کا نام نہیں لیا جائے گا ہم اس کا نام ہی گم کردیں گے وہ گمنام ہی رہے گا۔
انھوں نے کہا کہ نام صرف ان شہیدوں اور مظلوموں کے زندہ رہیں گے جنھیں اس نے مارا۔چنانچہ ایسا ہی ہوا نیوزی لینڈ کی پارلیمنٹ اور ملک میں اذانیں گونجیں،وہاں قران پڑھا گیا احادیث بیان کی گئیںشہداء کی بہادری کی داستانیں عام ہوئیں ان کے لواحقین کو دنیا نے جانا،مظلوم پہچانے گئے اور ظالم ہمیشہ کے لیے ذلالت کے گھپ اندھیروں میں گم ہوگیا۔نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسینڈر آرڈن نے اپنے عمل سے دنیا کو دہشتگردی اور ظلم کیخلاف ایک پیغام دیا ہے۔
ہمیں بھی ایسا ہی کرنا چاہیے ظالم کا نام مٹا دینا چاہیے اس کا نام نہ لو اسے پہچان نہ دو۔ مظلوم کا ساتھ دو اسے یاد رکھو مظلوم کی بات کرو جب دنیا ظالم کا نام مٹانا جان جائے گی ظلم خودبخود ختم ہوتا جائے گااور ہماری دنیا امن کا گہوارا بن جائے گی لیکن اس کے لیے دہشتگردی کیخلاف پوری دنیا کو ایک ہونا پڑے گا اور اس میں مذہب کی تفریق ختم کرنا ہوگی کسی مذہب کے ماننے والوں کو ہی دہشتگرد کہنا مکمل طور غلط ثابت ہوچکا ہے دہشت گرد کا کوئی مذہب نہیں ہوتا بلکہ دہشتگرد کو انسانوں میں بھی نہیں شمار کیا جاسکتا یہ ظالم دہشتگرد درندے ہیں جو انسانیت کے دشمن ہیں تمام اقوام عالم کو دہشتگردی کے خاتمے کے لیے ایک ہونا چاہیے تاکہ ان کا نام و نشان تک مٹ جائے جیسا کہ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسینڈر آرڈن نے عملی طور پر آواز بلند کرکے دنیا بھر میں اچھی شہرت کیساتھ نیک نامی کمائی ہے۔