نیوزی لینڈ میں ٢٨ سالہ عیسائی انتہا پسند دہشت گرد کا مساجد پر حملہ

Brenton Tarrant

Brenton Tarrant

تحریر : میر افسر امان

نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں مساجد پر عیسائی جنونی انتہا پسند دہشت گرد ٢٨ سالہ نیوزی لینڈ کے باشندے کا نمازیوں پر دہشت گردانہ حملہ۔ دہشت گرد نے جدید خوکاراسلحہ استعمال کیا ہے۔ وہ خود کش جیکٹ بھی پہنے ہوئے تھا۔دہشت گرد نیوزی لینڈ کی پولیس کی وردی پہنے ہوئے تھا۔ اس دہشت گرد حملے میںمسلم ملکوں٤٩ مسلمان شہید اور ٢٠ زخمی ہوئے۔ شہید ہونے والوں میں ٢ پاکستانی اورزخمیوں میں ٤ شامل ہیں جبکہ ٥ ابھی تک لاپتہ ہیں۔ بنگلہ دیش کرکٹ کی ٹیم کے کھلاڑی خوش قسمتی سے بچ گئے۔بچ جانے والی نمازیوں نے میڈیا کو بتایا کہ وہ سارے نمازیوں کو ختم کرنا چاہتا تھا۔ وہ چلا چلا کو فائرنگ کر رہا تھا۔ ہم لوگ دعائیں کر رہے تھے کہ اللہ کرے اس کی گولیاں ختم ہو جائیں۔ دہشت گرد موت کے کھیل کی لائیو سڑیمنگ بھی کرتا رہا۔ میڈیا میں اس کے اسلحہ کو دیکھا یا جس پر مسلم مخالف نفرت آمیز نعرے لکھے ہوئے تھے۔ اطلاع کے مطابق اس دہشت گرد کو تین ساتھیوں کے ہمراہ گرفتار کر لیا گیا۔ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے اپنے بیان میں کہاکہ یہ دن ملکی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے۔ پاکستان ،ترکی سمیت دنیا کے لیڈروں نے اس حملے کی مزاہمت کی۔

اب متعصب مغربی یہودی و عیسائی میڈیا اس کو عیسائی دہشت گرد کہنے کے بجائے دنیا کو بتائے گا کہ وہ ڈیپریشن کا شکار تھا، یہ تھا وہ تھا اور آخر میں کہہ دے گاکہ وہ پاغل تھا۔ اس کو کبھی بھی دہشت گرد نہیں کہے گا۔ کیونکہ مرنے والے عیسائی نہیں بلکہ مسلمان ہیں۔دہشت گرد عیسائی ہے مسلمان نہیں! اگر وہ مسلمان ہوتا تو مغربی میڈیا پوری دنیا کو سر پر اُٹھا لیتا۔ ایک دفعہ تو پیرس میںشارلی ایبڈو، جس نے مسلمانوں کے پیغمبر ۖ کے خلاف توہین آمیز کارٹون چھاپے تھے۔ بظاہر رد عمل میں توہین آمیز خاکہ شائع کرنے والے ہفت روزہ شارلی ایبڈو کے دفتر پر حملہ کیا گیا۔ جس میں ١٢ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ کسی مسلمان کی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف پوری دنیا کے عیسائی حکمرانوں نے مزاہمت کے لیے پیرس میں اکٹھے ہو کر جلوس نکالا تھا۔

دنیا کے چالیس صلیبی ملکوں کے سربراہوںنے ریلی بھی نکالی تھی۔ فرانس کے شہر پیرس میں لاکھوں افراد نے اس احتجاجی مارچ میں شرکت کی تھی۔ٹھیک ہے دہشت گردی چاہے کسی بھی مذہب کے لوگ کریں وہ دہشت گردی ہے ۔ دہشت گرد کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ وہ بس دہشت گرد ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے دہشت گردی کرنے والوں کے نام اسلامی تھے جس کی وجہ سے ان کی شنا خت اسلام کے نام سے ہوئی۔ اسلام ایک امن پسند دین ہے۔ دہشت گردی کے شکار ہونے والوں سے ہمدردی کرتے ہوئے مسلمانوں نے اس دہشت گردی کی مذمت کی تھی۔ ویسے بھی پیرس والے دہشت گردی کے واقعہ میں تو مسلمانوں کے پیغمبرۖ کے خلاف توہین آمیز خاکے شائع کرنے کے خلاف تو ١٢ افراد ہلاک ہوئے تھے ۔تو عیسائیوں کے چالیس ملکوں نے احتجاج کیا تھا۔ اس واقعہ میں تو مسلمانوں نے کسی کے خلاف کچھ بھی نہیں کیا تو پھر بھی دہشت گرد عیسائی ٢٨سالہ نوجوان نے سفاکیت کی حد کرتے ہوئے مسلم ملکوں کے٤٩ مسلمانوں کو شہید کر دیا اور ٢٠ سے زائد کو شدید زخمی کر دیا۔ کیا اس پر مسلم دنیا کے آزاد ٥٧ ملک بھی اکٹھے ہو کر اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کرنے کی ہمت کر سکتے ہیں؟

قارئین ! یہودیوں نے عیسائی دنیا کو مسلمانوں کے خلاف ایک سو چی سمجھی سازش کے تحت اشتعال دلا کر ایسے واقعات کرنے پر اُکسایا تھا۔ عیسائی اسلام فوبیا میں اندھے ہو گئے ہیں۔ اس کی بنیاد١٩ا میںامریکا کی طرف سے ڈالی گئی تھی۔ امریکا نے مسلمانوں کے خلاف بین الاقوامی سازش کرتے ہوئے یہودیوں کو ملا کر ١١٩ کا جعلی واقعہ کرایا گیا تھا۔ جس کے جعلی ہونے کی درجنوں کتابیں لکھی گئیں۔ آخر بات ایک امریکی نے بستر مرگ پر کہی کہ اُس نے ٹون ٹاور کی بنیادوں میں بارود رکھا تھا۔ سابقہ امریکی صدرجارج بش ایک انتہاء پسند عیسائی فرقے کا فرد ہے۔ ١١٩ خود ساختہ جعلی واقعہ کے بعد پریس کانفرنس میں بش نے صلیبی جنگ کا اعلان کیا تھا۔ اس کے بعد مسلم دنیا کو نیس تہس کر دیا گیا۔ یہودی میڈیا نے مسلمانوں کے خلاف اپنی بین الاقوامی میڈیا مہم میں مسلمانوں کو انتہا پسند اور دہشت گرد ثابت کیا۔دنیا میں کہیں پتہ بھی ہلا تو اسے مسلمانوں کی دہشت گردی سے جوڑ کر انٹر نیٹ پر شائع کر دیا گیا۔انٹر نیٹ سے نکالے گئے ایسے سیکڑوں مسلم دشمنی کے واقعات کی ٦٠ صفحات پر لسٹ موجود ہے۔ امریکا نے مسلم ملکوں کے میڈیا کو فنڈنگ دے کراستعمال کیا۔ اگر عیسائیوں کی مسلم دشمنی کو تاریخ میں ٹٹولہ جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جب عیسایوں کی جنگی قوت اور یہودیوں کے پیسے سے دوسری جنگ عظیم کے بعد مسلمانوں کی ترک عثمانی خلافت کو ١٩٢٤ء میںختم کیاتھا۔ اُس وقت امریکا کے وزیر دفاع نے اعلان کیا تھا کہ آئندہ دنیا میں مسلمانوں کی خلافت قائم نہیں ہونے دی جائے گی۔

ایک وقت آیا کہ سویٹ یونین نے گرم پانیوں کی لالچ میں ایک افغانی کیمونسٹ ببرک کارمل کو رشین ٹنکوں پر بیٹھا کر ، اپنی فوجیں افغانستان میں داخل کر کے افغانستان پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس پر پاکستانی کیمونسٹوں نے مسلمانوں کوڈرانے کے لیے پروپیگنڈا کیا تھا کہ سویٹ یونین جس ملک میں داخل ہو تا وہاں سے واپس نکلتانہیں۔ وہ شیطان کے چیلے بھول گئے تھے کہ” ڈریے رب قادر کولوں جیڑا چڑیا تو باز مراندا ہے”۔افغانیوں اور ان کی مدد کے لیے مسلم دنیا سے آئے ہوئے جہاد فی سبیل اللہ کے مجائدین اور پڑوسی ملک پاکستان کی مدد سے دنیا کی اُس وقت کی سب سے بڑی مشین سویٹ یونین کو شکست فاش ہوئی تھی۔ آج نیو ورلڈ آڈر والا شیطان کبیر امریکا بھی فاقہ مست افغانیوں سے مدد کی بھیک مانگ رہا ہے۔ سویٹ یونین اور امریکا سے پہلے برطانیہ نے بھی افغانیوں سے شکست کھائی تھی۔ سویت یونین کی شکست کے بعددنیامیں جہادی مجائدین کابول بالا ہو گیا تھا۔ جس سے امریکا خوف زدہ ہو گیا تھا۔

ضرورت اس امر کی تھی کہ اس کے بعد افغان عوام اپنی مرضی سے الیکشن کروا کے افغانستان کے معاملات خود چلاتے۔مگر امریکا نے اس وقت کی پاکستانی قیادت کو ساتھ ملا کر افغانستان میں افراتفری پھیلانے کے لیے ایک کمزور افغانی مجددی صاحب کو ملک کا صدر بنا دیا۔پھر افغان جہادی گروپ اور وار لارڈز آپس میں ہی لڑنے لگے۔اللہ کا کرنا کہ افغان طالبان نے سفید جھنڈا لہرا کر ملک میں وار لارڈز کومطیع کر لیا۔ ان سے اسلحہ واپس لے لیا۔ حزب اسلامی جو افغانستان میں جب سے بڑا مجائد ین کاگروپ تھا اس کے لیڈرگل بدین حکمت یار صاحب نے بھی طالبان کے ساتھ مفاہمت کرتے ہوئے اپنے چاریگر کا اسلحہ ڈپو طالبان کے سپرد کر دیا۔ افغانیوں نے طالبان مجائدملا عمرکے ہاتھ پر اسلامی طریقے سے بیت کر کے اس کو اپنا امیر لمومنین مان لیا اورافغانستان میں اسلامی حکومت قائم کر دی۔افغانستان میں امن امان قائم ہو گیا۔ افیون کی کاشت بل لکل بند ہو گئی۔افغان اسلامی حکومت کو پاکستان اور سعودی عرب نے تسلیم کر لیا۔ اس پر امریکا کے کان کھڑے ہو گئے۔

امریکا بہادرنے اپنے پرانے ڈاکٹرئن جو اُس نے ١٩٢٤ء میںمسلمان ترک عثمانی خلافت کو ختم کر اپنایا تھا کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان کے بزدل کمانڈو ڈکٹیٹر مشرف کو ڈرا دھمکاکر ساتھ ملایا اوراُسامہ بن لادن پر دہشت گردی کا الزام لگا کراور بہانہ بناکر طالبان کی اسلامی حکومت پر حملہ کر د یا۔ امریکا نے ملا عمر کو کہا تھا کہ ُ ُاسامہ بن لادن کو امریکا کے حوالے کردو۔ مگر اس مرد مومن نے امریکا کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا۔ ملا عمر نے بین الاقوامی مروجہ قانون اور اصولوں کے مطابق اُسامہ بن لادن کے خلاف دہشت گردی کے ثبوت مانگے۔ امریکااُسامہ بن لادن کے خلاف کوئی بھی ثبوت نہ دے سکا۔ امریکا نے صرف دوھونس دھاندلی سے کام لیتے ہوئے ملا عمرکو ڈرانا چاہا۔ ملا عمر نے شیطان کبیر اور نیو ورلڈ آڈر والے امریکا کے سامنے جھکنے کے بجائے اسلامی روایات پر عمل کرتے ہوئے اپنے مہمان اُسامہ بن لادن کو امریکا کے حوالے نہیں کیا اور حزیمت کی رہ اختیار کی۔ شیطان کبیر کے سامنے ڈٹ کر اپنے اسلاف کی روایا ت پر عمل کرکے اُن کا نام روشن کیا۔ آج امریکا جن طالبان کو دہشت گرد کہتا تھا اُن سے امن کی بھیک مانگ رہا ہے کہ کسی طرح افغانستان سے نکل جائے۔ مزاکرات کی میز پر امریکی نمائندے ،زلمے خلیل زاد کے سامنے پاکستان میں افغانستان کے سابق سفیر اور گواونتا موبے ،امریکا کی بدنام زمانہ جیل کے قیدی ملا ضعیف صاحب کو دیکھ کر شیطان کبیر امریکا کو شرم آنی چاہیے تھی۔ پھر مسلمانوں کو بھی فخر کرنا چاہیے افغان طالبان پر ، کہ جن کے ملک کو دشمنوں زیزہ ریزہ کر کے تورا بورا بنا دیا ہے مگر اب بھی وہ دشمن سے آنکھیں ملا کر برابری کی بنیاد پر مزاکرات کر رہے ہیں۔

انتظار کرے دنیا جب شیطان کبیرامریکا کے افغانستان سے نکلنے کے بعد، طالبان پھر سے اپنی اسلامی حکومت بنائیں گے۔ پاکستان کی مغربی سرحد کو پھر سے محفوظ بنائیں گے۔بلکہ اپنی عوام کی مشاورت سے افغانستان کو پاکستان کا ایک صوبہ بنانے کا اعلان کریںگے۔ تاریخ اپنے آپ کو دھرائے گی ۔ مسلم دنیا کے اندر اتحاد کی بنیاد رکھی جائے گی۔ شاعر اسلام حضرت شیخ علامہ محمد اقبال کی روح کو سکون ملے گا کہ جس نے مسلمانوں کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ:۔

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے۔

نیل کے ساحل سے کر تا بخاک کاشغر

پھر دنیا میں اسلام کے خلاف یہود و نصارا کا پھیلایا ہوا اسلامی فوبیا ختم ہو گا۔ مسلمان سر اُٹھا کے چلنے کے قابل ہو جائیں گے۔اُس وقت پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کو بھی منہ کی کھانی پڑھے گی ۔ جو اِس وقت امریکا اور اسرائیل کے ساتھ مل کر پاکستان کو ختم کرنے کے بہانے ڈھونڈ تا رہتا ہے۔ اب بھی بھارت نے پاکستان پر حملہ کر منہ کی کھائی اور آئندہ بھی بھارت کا منہ کالا ہو گا۔پھر نیوزی لینڈ جیسی دہشت گردی بھی نہیں ہوسکے گی۔ انشا اللہ۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر : میر افسر امان