ایک دن کی خبر، خیبر ایجنسی تیراہ کوکی خیل میں فضائیہ کے جیٹ طیاروں نے بمباری کی جس کے نتیجے میںآٹھ شدت پسند ہلاک اور پانچ ٹھکانے تباہ ہو گئے،اور یہ صرف آج کی خبر نہیں جب سے ضرب عضب شروع ہوئی ہر روز کی خبریں ہیں تین اہم کمانڈروں سمیت دس ہلاک اور چھ ٹھکانے تباہ چار بارود سے بھری گاڑیاں تباہ ،شمالی وزیرستان میں دتہ خیل اور شوال میں جیٹ طیاروں کی بمباری سے ٦٥ شدت پسند ہلاک اور ٥ ٹھکانے تباہ… خیبر ایجنسی میں خیبر ون کے تحت کاروائی ،اور تیراہ کے علاقہ شکون میں جیٹ طیاروں کی بمباری سے ٤١ دہشت گرد ہلاک جبکہ ٨ سیکیورٹی اہلکار شہید ہوئے کوئٹہ میں بھاری تعداد میں اسلحہ برآمد… وغیرہ و غیرہ… کوئی دن ہو گا جب اہم کمانڈروں کی ہلاکت اور ٹھکانے تباہ کرنے کی خبر نہ ہو، پھر پشاور کے شیر شاہ روڈ پر ایف سی کے قافلہ کو نشانہ بنایا گیا،
اہلکار سمیت 5 شہید اور 29 زخمی برگیڈئیر خالد محمود محفوظ رہے، فورا تحریک طالبان پاکستان نے زمہ داری قبول کر لی اور کہا کہ ایسی مزید کاروائیاں کریں گے۔ آج تک کی خبروں سے تو پتہ چلتا ہے کہ دشت گردوں کا صفایا کر دیا ہے، مگر یہ سچ نہیں مولانا فضل الرحمن ، جمعہ١٨ ،اکتوبر کو حج سے واپسی پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب میں صرف آٹھ یا دس جنگجو مارے گئے باقی سب علاقے سے نکل گئے تھے صدر مملکت ، وزیر آعظم، اور دیگر عمائدین کا روائتی مذمتی بیان …، وزیر آعظم میاں نواز شریف کہتے ہیں دشت گردوں کو اُن کے منطقی انجام تک پہنچا کر ہی دم لیں گے ،مگر شاہد اللہ شاہد کسی نامعلوم مقام سے اخبار کو فون کرتے ہیں کہ ہم ابھی ہیں اور مزید کاروائیاں کریں گے
حیران کن امریہ ہے کہ چار ماہ سے جاری جیٹ طیاروں کی بمباری سے مقصد حاصل نہیں ہو سکا کیوں ؟قابلِ غور فکر ہے کہ کیوں ؟یہ دشت گرد ،شدت پسند یا طالبان تو قوم کی آستینوں میں چھپے ہیں واہگہ بارڈر پر خود کش دھماکہ اس امر کا ثبوت ہے کہ وہ ہماری آستینوں جب چاہیں نکل کر …..! ا ور فوج انہیںتلاش کر رہی وزیرستان کی پہاڑیوں میں، اور غاروں میں، بہت دیر کے بعد ان کی تلاش شروع کی جب وہ غاروں سے نکل کر آستینوں میں آبسے ….کابل سے لائی گئی سِمز سے اُن کے ایک دوسرے سے رابطے ہیں، اور یہاں ایسے مواقع پر موبائل سروس بند کر دی جاتی گویا دہشت گردوں کے رابطے روکنے ہیں یہ ہماری سوچ، وہ پاگل نہیں جو عام سم استعمال کریں ، اسی لئے تو ترجمان تحریک طالبان پاکستان اعلان کرتے ہیں کہ ایسی مزید کاروائیاں، دو تین ماہ تک طالبان خاموش رہے ،اور یہ اُن کی پالیسی تھی،اُن کی ساری قیادت موجود ہے
اسی خاموشی میں جب فوج کہیں ریلکس ہوگی اور سمجھے گی کہ ہم نے بڑی کامیابی حاصل کر لی ہے تب شدت پسند اپنی کاروئیاں دوبارہ شروع کر دیں گے جیسا کہ ہمارے حکمران اور عسکری قیادت کہہ رہے ہیں کہ طالبان کی کمر توڑ دی اب وہ …اگلے دن وزیر آعظم کہتے ہیں کہ آخری دہشگرد کے خاتمے تک جنگ جاری رہے گی ،٢٠ ستمبر ٢٠١٤سے وقفے وقفے سے طالبان اپنی موجودگی ظاہر کر رہے ہیں ،وادی تیراہ میں امن کمیٹی کے اجلاس میں خود کش حملہ ہوأ جس میں ٧ ،افراد جاں بحق اور ١٩، ز خمی ہوئے ،اور جنوبی وزیرستان میں تورا گُلا کے قریب سکیوٹی فورسز کی گاڑی کو بم سے نشانہ بنایا گیاتین اہلکار زخمی ہوگئے ،ان کا نیٹ ورک بہت تیزاور فعال ہے تحریک طالبان کی ایک نمبر قیادت موجود ہے جو پلاننگ میں مصروف ہیں ورنہ اُنہیں یہ خبر کیسے پہنچی کانوائے کب کہا ںسے گزرے گی اور ان کا تارگِٹ کون ہے اس سے یہ واضح ہے کے وہ ہماری آستینوں میں جنہیں تلاش کرنا اور ختم کرنے کے لئے سوات کے پہاڑوں ،تیراہ کے پہاڑوں اور وزیرستان کے پہاڑی غاروں میں…..ا ب اسلام آباد میں مسجد سے ١یک یا دو ،تین اور ٤،نہیں ایکدم ٩ ،دشت گرد پکڑے گئے اور تفتیش کے لئے نا معلوم مقام پر لے جائے گئے
Pakistan
اور یہ نامعلوم مقام پاکستانی شہریوں کے لئے کہ کہاں ہے مگر دشت گردوں کے لئے کوئی نامعلوم مقام نہیں ،سوال تو یہ بھی اہم ہے کہ وہ یہاں کیسے پہنچے ،انہیں سب علم ہے کہ وہ کہاں سے اور کیسے اور کب پہنچنا ہے مزے کی بات تو یہ ہے جگہ جگہ شہروں میں داخلی راستوں پر ناکے جہاں شہریوں کو چک کیا جاتا ہے ،یہی نہیں خار دار تاریں لگائی گئی سڑکیں بند ،پھر بھی وہ جہاں چاہیں جب چاہیں پہنچ کر کاروائی کرتے ہیں …بھلے آپ ہر روز ایسی خبریں دیتے رہیں کہ جٹ طیاروں کی بمباری سے…..اب کر اچی میں داعش کی حمائت میں وال چاکنگ کی خبر ہے یہی نہیں،کراچی سنٹرل جیل میں بزریعہ سرنگ پہنچنے اور خطرناک ١٠٠ سے زائد خطرناک قیدیوں کو چھڑانے کا منصوبہ پکڑا گیا ،منصوبے کی تکمیل میں ٤٥ میٹر سرنگ تیار تھی ، محض دس میٹر سرنگ باقی تھی کہ پکڑی گئی ، اور اس کے لئے سندھ رینجرز کو کمال مہارت سے اِس خطرناک منصوبے کو پکڑنے اور خطرناک دہشت گردوں کو گرفتار کرنے پر سلام کرتے ہیں، لیکن ایسے منصوبوں کے لئے یہاں سے اُنہیں معاونت ملتی ہے
یہ پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں ہر گھر اور محلے میں ان کے حمائتی موجود ہیں،غیر محسوس انداز میں حساس اداروں تک میں ان کی رسائی ہے ،کامرہ میں حملہ کراچی میں نیول بیس پر دو دفعہ حملہ ،آرمی کے دل پر حملہ یہ اِس امر کا ثبوت ہے کہ کہ ہر جگہ وہ موجود ہیں ،شمالی وزیرستان میں آپریشن سے قبل ہی وہ نکل گئے ….٢٠١١ ،میں کرم ایجنسی کے صدر مقام پاراچنار تک بڑی مشکل سے پہنچا جس کا ملک سے زمینی راستہ منقطع تھا ، کوشش کی کہ سچائی تک پہنچوں مگر … اور اِس نتیجے پر پہنچا کہ ایسے شورش زدہ علاقوں میں آزاد صحافی کا پہنچنا مشکل ہے پھر ہمیں وہاں کی خبریں کیونکر مل سکتی ہیں ،اور جو خبریں پہنچتی ہیں اُن میں محض دس یا بیس فی صد سچائی ہوتی ہے فوج مخصوص صحافیوں کو لے جاتی ہے اور خاص مقامات کی سیر کرائی جاتی اور جو کچھ اُن کے منہ میں ڈالا جاتا ہے وہ اسی کی جگالی کرتے ہیں جس میں ٨٠ فی صد مبالغہ ہوتا ہے اب چار پانچ ماہ سے جتنی خبریں آ رہی ہیں دہشت گردوں کے مارے جانے کی تو اب تک وہاں پتھر پر پتھر بھی باقی نہیں بچا ہو گامگر.. …..!!