پاکستان کے عوام کی طرح صحافی بھی بے آسرا اور غیر محفوظ ہیں۔ تاہم صحافیوں کو ٹارگٹ کر کے قتل کرنے کی کوششوں سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ بعض عناصر اس معاشرے میں خبروں کی ترسیل یا مخالفانہ رائے کے اظہار کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ رضا رومی کی طرح ملک بھر کے صحافی اس سانحہ پر حیران اور بدحواس ہیں۔ رضا رومی نے اس حملہ کے بعد ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ اس طرح کے واقعات سے لوگوں میں احساس تحفظ ختم ہو رہا ہے۔ اگر اس صورتحال کو تبدیل نہ کیا گیا تو حکومت اور اس کے شہریوں کے درمیان تعلق و رشتہ کو شدید نقصان پہنچے گا۔رضا رومی نے لاہور میں ہونے والے حملہ کے بعد اپنے ٹیلی ویڑن اسٹیشن کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ملک کے سیاستدانوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر آج صحافیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے تو کل سیاستدانوں کی باری بھی آ سکتی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ وہ اس قسم کے سانحات کی روک تھام کے لئے فوری اقدام کریں۔ یہ صورتحال جاری رہنے کی صورت میں پاکستان میں نہ تو احساس تحفظ رہے گا اور نہ ہی گورننس کا وجود ہو گا۔
اس حملہ میں رضا رومی کا ڈرائیور ہلاک ہو گیا ہے اور ان کے ساتھ سفر کرنے والا محافظ زخمی ہؤا ہے۔ رضا رومی کو بھی کار کے شیشے کے ٹکڑے لگنے سے معمولی زخم آئے ہیں۔ پولیس کو موقع واردات سے گیارہ چلے ہوئے کارتوسوں کے خول ملے ہیں۔ یہ حملہ دو نقاب پوش موٹر سائیکل سواروں نے راجہ مارکیٹ کے قریب کیا تھا۔ رضا رومی نجی ٹی وی پر اپنا پروگرام کرنے کے بعد گھر واپس جا رہے تھے۔ انہوں نے حملہ کے بعد بتایا ہے کہ حملہ کے فوراً بعد میرے ذہن میں یہی خیال آیا تھا کہ یہ کیسا معاشرہ ہے جہاں نہ سکیورٹی ہے نہ تحفظ ہے اور نہ ہی کوئی ضمانت۔ آخر ان لوگوں پر کیا بیتتی ہے جن کے پاس نہ تو گارڈز ہیں اور نہ ہی پولیس میں روابط اور نہ ہی وہ میڈیا کے ذریعے توجہ حاصل کر سکتے ہیں۔رضا رومی نے جو سوال اٹھائے ہیں وہ نہایت بروقت اور قابل فہم ہیں۔ لیکن کل رات ان پر حملہ ہونے سے پہلے بھی ملک میں یہی صورتحال موجود تھی اور اس حملہ کے بعد بھی ایک دن کے احتجاج ، بیان بازی اور مجرموں کو پکڑنے کے دعووں کے ساتھ ہی صورتحال جوں کی توں رہے گی۔ گزشتہ ایک دہائی میں انتہا پسندوں کے ہاتھوں 50 ہزار سے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں۔
حکومت اپنے شہریوں کے علاوہ خود اپنے عمال اور فوجی قافلوں کی حفاظت کرنے میں ناکام رہی ہے۔ چند ہفتے قبل اسلام آباد کچہری میں دہشت گرد حملہ میں دیگر لوگوں کے علاوہ ایک ایڈیشنل سیشن جج کو ٹارگٹ کر کے قتل کر دیا گیا۔ اس کے فوراً بعد وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے قومی اسمبلی میں یہ وضاحت کرنے کی کوشش کی کہ اس جج کو دہشت گردوں نے نہیں مارا بلکہ وہ خود اپنے محافظ کی گولی کا نشانہ بنے۔ پولیس تفتیش سے یہ دعویٰ غلط ثابت ہو چکا ہے۔دہشت گردوں کے حملوں کے علاوہ ٹارگٹ کلنگ روز مرہ کا معمول بن چکا ہے۔ کراچی میں ایک طویل عرصے سے مختلف گروہ ایک دوسرے کے لوگوں کو چن چن کر قتل کرتے ہیں۔ حکومت کے متعدد وعدوں کے باوجود صورتحال میں قابل ذکر تبدیلی رونما نہیں ہوتی۔ حکومت بھی اپنی رٹ قائم کرنے اور جرائم کی روک تھام کے لئے انہی لوگوں سے مدد مانگنے پر مجبور ہوتی ہے جو ان جرائم میں ملوث ہوتے ہیں۔
Taliban
اس کی تازہ ترین مثال طالبان کے ساتھ حکومت کے مذاکرات سے پیش کی جا سکتی ہے۔ حکومت نے طالبان سے ” جنگ بندی ” کا مطالبہ کیا تھا اور طالبان کی طرف سے ایک ماہ تک حملے نہ کرنے کے اعلان کے بعد بات چیت آگے بڑھی تھی۔ اب یہ مدت ختم ہونے والی ہے تو حکومت کا سرفہرست مطالبہ یہ ہے کہ طالبان ” جنگ بندی ” میں توسیع کر دیں۔ گویا حکومت جرائم پیشہ اور قانون شکن گروہوں کے رحم و کرم پر ہے۔ یا تو یہ عناصر کسی نہ کسی صورت حکومت کا حصہ ہیں یا بندوق کی نوک پر انہوں نے ایک سیاسی جمہوری حکومت کو یرغمال بنایا ہؤا ہے اور سیاسی قیادت ان کے مطالبات ماننے اور بات سننے پر مجبور ہے۔رضا رومی نے جس تحفظ کی بات کی ہے وہ اس ملک سے کب کا رخصت ہو چکا ہے۔ پاکستان کے شہروں اور دیہات میں اس وقت تک امن رہتا ہے جب تک کوئی انتہا پسند گروہ یا جرائم پیشہ عناصر حملہ آور ہونے سے گریز کرتے ہیں۔ جس لمحہ وہ کوئی کارروائی کرنے کا قصد کرتے ہیں’ انہیں روکنے یا ناکام بنانے کے لئے کوئی سرکاری ادارہ موجود نہیں ہوتا۔لاہور میں ہونے والے حملہ کے بعد خاص طور سے پولیس کو مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے۔ حسب دستور اسی پر سب سے زیادہ تنقید ہو رہی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بعض دوسرے ادارے اور سیاستدان بدعنوانی میں اب پولیس سے بازی لے جا چکے ہیں۔ اس کے علاوہ نہ پاکستان کی پولیس فورس کے پاس وسائل ہیں اور نہ ہی انہیں مسلح جتھوں پر قابو پانے کی تربیت دی جاتی ہے ۔ متعدد سانحات میں یہ دیکھا گیا ہے کہ یا تو ” حفاظت ” پر مامور پولیس والے خود ہی نشانہ بن جاتے ہیں یا حملہ آور کو آتا دیکھ کر خود اپنی جانیں بچانے کے لئے بھاگتے ہیں۔
صحافی پر ہونے والا حملہ پولیس کی نااہلی نہیں بلکہ ایک نظام کی ناکامی پر دلالت کرتا ہے۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ملک کے سیاستدان اور سکیورٹی فورسز کی قیادت نے جو حکمت عملی تیار کی ہے ، وہ ناکام ہو رہی ہے۔ اب پولیس کو جوابدہ کرنے کی بجائے یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ اس ناکارہ اور غیر مؤثر نظام کو کیوں کر بہتر بنایا جا سکتا ہے تا کہ وہ اپنے لوگوں کی حفاظت کا فرض پورا کر سکے۔ اس حملہ کے حوالے سے یہ نوٹ کرنا بھی اہم ہے کہ گزشتہ 9 ماہ کے دوران ایک ہی میڈیا ہاوس سے متعلقہ لوگوں پر یہ پانچواں حملہ ہے۔ میڈیا کے دفاتر اور اس سے متعلقہ لوگوں کو اس سے قبل 4 مرتبہ ٹارگٹ کیا جا چکا ہے۔ طالبان کی طرف سے ایک موقع پر یہ کہا گیا تھا کہ وہ میڈیا کو سبق سکھانے کے لئے یہ حملے کرتے ہیں۔ لیکن صرف ایک ہی میڈیا ہاوس کیوں ٹارگٹ ہو رہا ہے اور باقی ٹیلی ویڑن چینل اس قسم کا حملہ ہونے کے بعد کیوں خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔
یہ کہنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہئے کہ جس نظام کی ناکامی کی وجہ سے ملک میں عدم تحفظ میں اضافہ ہو رہا ہے اس میں میڈیا نے بھی اپنا رول ادا کیا ہے ۔ یہ خبریں اب اخباروں کی زینت بن چکی ہیں کہ مختلف انتہا پسند گروہ میڈیا میں دسترس حاصل کر چکے ہیں۔ اسی طرح مختلف اینکرز ، کالم نگار اور صحافی کسی نہ کسی طور پر کسی نہ کسی گروہ کی خدمت پر مامور ہیں اور اس کے عوض یا تو فوائد حاصل کرتے ہیں یا وہ محفوظ رہنے کے لئے ایسی خدمات فراہم کرنے پر راضی ہو جاتے ہیں۔صحافی تنظیموں کو ایک صحافی پر حملہ کی روشنی میں احتجاج کرتے ہوئے یہ بات ضرور پیش نظر رکھنی چاہئے کہ پاکستان میں آزادء اظہار کو صرف حکومت یا نادیدہ دہشت گرد اور جرائم پیشہ گروہوں سے ہی خطرہ نہییں ہے۔ اس آزادی پر سب سے زیادہ حملہ خود صحافیوں کی صفوں میں سے ہو رہا ہے۔ حرف کی حرمت اور صحافی کی عزت بحال کرنے کے لئے آج کے پاکستانی اخبار نویسوں کو زیادہ مستعد اور چوکس ہونے کی ضرورت ہے۔