تحریر : واٹسن سلیم گل گزشتہ ہفتے میں چند دن کے لئے اپنی فیملی کے ساتھ چھٹیوں پر سویٹزرلینڈ اور اٹلی میں تھا۔ بچوں کا حکم تھا کہ کہ چھٹیوں کا مطلب صرف چھٹیاں ہوگا۔ اخبارات، ٹی وی ٹالک شوز، سیاسی اور سماجی رابطے مکمل طور پر منقطع رہیں گے۔ میں نے بھی وعدہ تو کر لیا مگر اس کا جگاڑ یہ نکالا کہ سارا دن فیملی کے ساتھ گھوم پھر کر جب آتا تو تھکن کا بہانا کر کے اپنے کمرے میں آجاتا اور پھر اپنا اسمارٹ فون نکال کرتازہ خبریں اور شاہزیب خانزادہ کا پروگرام ضرور دیکھ لیتا تھا۔ بچے بھی خوش اور میں بھی، مگر پھر بھی میں مکمل طور پر باخبر نہی تھا۔ اسی دوران جنگ لندن میں 24 اکتوبر کو ایک کالم چھپا جسے میں دیکھ نہی سکا وہ کالم دراصل میرے ایک گزشتہ کالم کے جواب میں تھا جوجنگ لندن میں 16 اکتوبر کو چھپا تھا۔ اس کالم میں میں نے کیپٹن صفدر کی اقلیتوں کے خلاف تقریر کو موضوع بنایا تھا۔ مجھے میرے ایک دوست نے جو لندن میں رہتے ہیں فون کیا مگر رابطہ نہ ہو سکا۔ میں نے واپس آتے ہی ان کو فون کیا تو میرے دوست نے مجھے 24 اکتوبر والا کالم بھیج دیا۔ اس کالم میں چند سوالات اٹھائے گئے ہیں میں کوشش کرونگا کہ پڑھنے والے خود فیصلہ کرلیں کہ میں سچ کہہ رہا ہوں یا نہی۔ کالم نگار دعویٰ کرتے ہیں کہ اسمبلی میں پیش کی گئ کیپٹن صفدر کی تقریر میں اقلیتوں کا زکر ہی نہی تھا۔ اس کا فیصلہ میں ان دوستوں پر چھوڑتا ہوں جنہوں نے کیپٹن صفدر کی پارلیمنٹ میں حالیہ تقریرسُنی ہوگی۔ اور میں دعویٰ کرتا ہوں کہ ان کی ساری کی ساری تقریر ہی اقلیتوں کے خلاف تھی۔
ہاں اگر کالم نگار پاکستان میں رہنے والے قادیانیوں کو اقلیت نہی سمجھتے تو بات الگ ہے۔ کیپٹن صفدر کا سوال کیا تھا کہ پاکستان میں کوئ بھی جہاد فی سبیل اللہ اور ختم نبوعت پر ایمان نہی رکھتا وہ پاک فوج سمیت کسی بھی اہم محکمے میں بھرتی نہی ہو سکتا۔ تو میرا سوال یہ تھا کہ بھائ کوئ بھی غیر مسلم کیسے جہاد فی سبیل اللہ پر اور ختم نبوعت پر ایمان رکھ سکتا ہے اور اگر ایمان رکھتا ہے تو وہ غیر مسلم نہی ہوسکتا۔ پھر کیپٹن صفدر ممتاز قادری کے نعرے بھی لگاتے رہے۔ ممتاز قادری نے سلمان تاثیر کو صرف اس لئے قتل کیا تھا کہ اس نے ایک غریب عورت کو جو کہ مسیحی تھی اور بیمار تھی دلاسا دیا تھا۔ پھر کیا کیپٹن صفدر نے اسی پارلیمنٹ کی عمارت میں یہ نعرے نہی لگائے تھے کہ ” جو عسایئوں یار ہے غدار ہے غدار ہے۔
اگر میرے دوست نے یہ نعرے نہی سُنے تو سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔ محترم کالم نگار لکھتے ہیں کہ کہ میرا قلم اس وقت حرکت میں کیوں نہی آیا جب اسی پارلیمنٹ میں ترمیمی بل منظور ہو رہا تھا جب مسلمانوں کے اجتماہی عقیدہ پر نقب لگائ جارہی تھی۔ پہلی بات تو میری معلومات کے مطابق ایسا کوئ بل پیش ہی نہی ہوا تھا اور یہ قطئ غلط بیانی ہے کہ 1974 کے فیصلے کو تبدیل کیا جارہا تھا۔ 1974 کا فیصلہ جو احمدیوں کے حوالے سے تھا وہ پاکستان کے آئین کا حصہ بن چکا ہے۔ اور اسے پارلیمنٹ میں صرف ایک تہائ اکثریت کے ساتھ ہی تبدیل کیا جاسکتا ہے اور اس وقت نہ تو کسی جماعت کے پاس ایک تہائ اکثریت ہے اور نہ ہی پارلیمنٹ میں بیٹھنے والی اکژیت کوئ غیرمسلم ہے جو اسلام کے خلاف کوئ فیصلہ لائے گی۔ یہ صرف پروپیگینڈہ تھا۔ رہی بات میرے قلم کی تو میں یہ بات پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ جب امریکہ میں نام نہاد پادری ٹیری جانزنے قرآن کو نزرآتش کرنے کا اعلان کیا تھا اور میں نے اس کی اس حرکت کے خلاف قلم اٹھایا تھا میری اس تحریر نے ہالینڈ کے سب سے بڑے اخبار تراؤ میں جگہ بنائ تھی۔ موصوف مجھے بتائیں کہ پاکستان کے دانشور، مفکر، بڑے بڑے صحافی ، سیاستدان اور دیگر مکاتب فکر کے لوگ اقرار کرتے ہیں کہ پاکستان میں اقلیتیں برابر کے شہری نہی ہیں تو آپ کس پیمانے پر اس دعویٰ کا دیکھ رہے ہیں۔ محترم آگے جا کر توہین اسلام کی مبینہ ملزم مسیحی خاتون کی پاکستان میں حفاظت کی کیا خوب دلیل پیش کرتے ہیں کہ وہ جیل میں محفوظ ہے۔ جناب وہ خاتون 8 سال سے صرف اس لئے جیل میں ہے کہ اس نے ایک مسلمان خاتون کے پانی کے برتن کو چھو لیا تھا۔ وہ جیل میں شدید بیمار ہے اور جیل کوئ محفوظ جگہ ہوتی ہے اس سوچ پر ؟۔ اقلیتوں کے پاس جمہوری طریقہ انتخاب نہی ہے۔
ان کے سر پر نمایندے مسلط کئے جاتے ہیں۔ جس وقت یہ تحریر لکھ رہا ہوں (ٹائپ کرہاہوں ) لاہور ہائیکورٹ کےجسٹس ملک شہزاد احمد نے کیپٹن صفدر کی تقریر کے خلاف درخواست مسترد کر دی اس درخواست میں یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ان کےالفاظ سے غیرمسلموں کی دل آزاری ہوئی ہے، آئین کےتحت کسی طبقے کے خلاف نفرت انگیز تقریر نہیں کی جاسکتی۔ مگر یہ درخواست ردی کی ٹوکری کی نزر ہو گئ۔ ہم پاکستانی مسیحی پاکستان میں ہوں یا پاکستان سے باہر ہمیں محب وطن ثابت کرنے کے لئے کسی سرٹیفکٹ کی ضرورت نہی ہے۔ ہم کیا مانگتے ہیں ؟۔
کیا کوئ صوبہ کوئ شہر ، کوئ وزیراعظم، جنرل کی پوسٹ ہم کچھ نہی مانگتے ہیں ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہمیں برابر کا شہری تسلیم کیا جائے اگر ہم برابر کے پاکستانی ہونگے تو ہمیں سب کچھ مل جائے گا کیا یہ ہمارا جرم ہے۔ کیا یہ انصاف ہے کہ 1947 میں اقلیتیں نشتیں 13 تھیں جو 70 سال بعد 10 رہ گئ ہیں۔ 70 سال میں پاکستان کی آبادی تین گناہ ہو گئ اور اقلیتی خواتین نے بچے جننا چھوڑ دیے۔ کیا یہ تماشہ نہی ہے کہ پارلیمنٹ میں مسیحی نمایندے مسیحیوں کے نہی ہیں کیونکہ ان کو مسیحی ووٹوں کی ضرورت ہی نہی ہے۔ ہماری حکومتیں اپنے لئے جمہوری نظام کا نعرہ لگاتی ہیں مگر اقلیتوں کے سر پر آمری ہتھوڑے کو جمہوری کپڑے میں لپیٹ کر مارتی ہیں۔ میں دعوٰی سے یہ کہتا ہوں کہ کیپٹن صفدر کی پارلیمنٹ میں تقریر کے بعد نواز لیگ کی خاموشی اس بات کو تقویت دیتی ہے کہ کیپٹن صاحب کی یہ تقریر صرف کیپٹن صاحب کی نہی بلکہ پوری ن لیگ اس نطریہ کے پیچھے کھڑی ہے۔