این آئی سی ایچ کے 5 وینٹی لیٹرز، 16 انکیو بیٹرز خراب روزانہ 12 بچے مرنے لگے

Children

Children

کراچی (جیوڈیسک) کراچی میں قائم سندھ کے سب سے بڑے قومی ادارہ صحت برائے اطفال اسپتال میں ہر 24 گھنٹے کے دوران 12 سے 16 بچے اسٹاف کی کمی،سہولیات کے فقدان اور وقت پر ادویات نہ دینے اور سہولیات میسر نہ ہونے سے ہلاک ہونے لگے جس پر انتظامیہ نے ایسے بچوں کا ریکارڈ خفیہ رکھنے اور ہلاک ہونے والے بچوں کو فوری طور پر اسپتال سے نکالنے کی ہدایت کررکھی ہے۔ ذرائع کے مطابق اسپتال کی نرسری میں قائم 8 میں سے 5 وینٹی لیٹر اور 42 انکوبیٹرز میں سے 16 خراب ہونے،اسٹاف کی کمی، ادویات کی کمی سمیت دیگر سہولتوں کی کمی کے باعث اسپتال کے شعبہ حادثات ،نرسری اور دیگر وارڈز میں ہر 24 گھنٹے کے دوران 12 سے 16 بچے ہلاک ہونے لگے ہیں، اسپتال انتظامیہ بچوں کی ہلاکتوں کا ریکارڈ چھپارہی ہے۔

روزانہ کی بنیادوں پر متعدد بچوں کی ہلاکت پر وزیر صحت سندھ ڈاکٹر صغیر احمد اور سیکریٹری صحت سندھ اقبال درانی نے بھی انتظامیہ سے کسی قسم کی معلومات حاصل نہیں کیں اور نہ ہی کوئی تحقیقاتی کمیٹی قائم کی جو ذمہ داروں کے خلاف ایکشن لے۔ذرائع نے بتایا کہ روزانہ کی بنیادوں پر اسپتال کے شعبہ حادثات میں 150 سے 2سو مریض بچے مختلف وجوہات کی بنا پر رپورٹ ہوتے ہیں جن میں سے وزن کی کمی،غذائی قلت کا شکار اور ایسے بچے جنہیں مصنوعی سانس کی ضرورت ہوتی ہے انہیں ابتدائی طبی امداد شعبہ حادثات میں دی جاتی ہے

جس کے بعد انہیں اسپتال کی چھٹی منزل پر قائم نرسری اور دیگر شعبہ جات میں داخل کرادیا جاتاہے جہاں پر سہولیات کے فقدان سمیت دیگر وجوہات کی بناء پر بچوں کی شرح اموات میں اضافہ ہورہاہے۔اسپتال کی نرسری میں موجود نیوکراچی لاسی گوٹھ کے رہائشی معیز نے بتایا کہ اس کا بیٹا 12دن قبل ایک نجی اسپتال میں سرجری کے ذریعے پیدا ہوا تھا جسے سانس کی تکلیف تھی ،ڈاکٹروں نے بدھ کے روز این آئی سی ایچ اسپتال بھیجا جہاں پر وینٹی لیٹر خالی نہ ہونے کی وجہ سے بچے کو انکیوبیٹرز پر داخل کرایا جہاں پر وہ گزشتہ کئی گھنٹوں سے اپنے بیٹے کو امبو بیگ کے ذریعے مصنوعی سانس دیتا رہا عملے کی کمی اور وینٹی لیٹر کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے اس کا بچہ چند لمحوں کے بعد جاں بحق ہوگیا

اس نے اور بھی کئی بچوں کو وہاں جاں بحق ہوتے ہوئے دیکھا۔اسپتال کے طبی عملے نے روزنامہ’’دنیا‘‘کو بتایا کہ اسپتال کے شعبہ حادثات، نرسری، سرجیکل وارڈ سمیت دیگر وارڈز میں روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی شرح اموات اور سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے متعدد بار اسپتال کی انتظامیہ کو آگاہ کرچکے ہیں اور لواحقین کی جانب سے متعدد بار ان شعبہ جات میں ہونے والے احتجاج اور توڑپھوڑ کے واقعات کے حوالے سے بھی آگاہ کرچکے ہیں جس پر انتظامیہ نے طبی عملے کی تعدا د میں اضافہ کرنے اور دوائوں کی فراہمی سمیت دیگر سہولتیں فراہم کرنے کے بجائے اسپتال میں سیکیورٹی سخت کرنے کے لیے درجنوں نجی سیکیورٹی گارڈز تعینات کردیے جنہیں جدید اسلحہ بھی فراہم کردیا گیا ہے

جن میں سے متعدد سیکیورٹی گارڈز وردی اور بغیر وردی میں اسلحہ لیے اسپتال کے مرکزی دروازے سمیت دیگر مختلف وارڈز میں گھس کر خواتین تیمارداروں کو ہراساں بھی کرتے ہیں جس کی شکایت متعدد بار کی گئی ہیں لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ذرائع نے بتایا کہ پہلے سرکاری چوکیدار مریض بچوں کے تیمارداروں سے وارڈز میں آنے جانے کی مد میں 20سے30روپے وصول کررہے تھے اور اب نجی سیکیورٹی گارڈ جوکہ اسلحہ سے لیس ہیں وہ بھی اب رشوت طلب کررہے ہیں جس کی وجہ سے ملک بھر کے گاؤں اور دیہی علاقوں سے آنے والے افراد کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے۔انہوں نے کہاکہ وفاقی اسپتالوں کی جانب سے عدالت میں کیس بھی داخل ہے

جس کی وجہ سے ان اسپتال کی انتظامیہ سے محکمہ صحت سندھ بھی پوچھ گچھ نہیں کررہا۔ ذرائع نے بتایا کہ گزشتہ روز سہ پہر کے وقت نجی سیکیورٹی گارڈنے سرجیکل وارڈ میں داخل ایک مریض بچے کے لیے جوس اور بسکٹ لے کر واپس وارڈ میں جانے والی خاتون کو روک لیا اور کہاکہ وہ شام چار بجے داخل ہوسکے گی کیونکہ ابھی ڈاکٹروں کا راؤنڈ ہورہا ہے جس پر بچے کی والدہ نے احتجاج کیا جس پر گارڈز نے اسے جدید اسلحہ دکھاکر خاموش رہنے کا کہا جس پر خاتون گارڈز اور دیگر تیمارداروں کے سامنے رونے لگی جس پر اسے وارڈ میں جانے کی اجازت دی۔اس حوالے سے اسپتال کے ڈائریکٹر پروفیسر جمال رضا سے رابطہ کیا گیا لیکن ممکن نہ ہوسکا۔