نائجر (اصل میڈیا ڈیسک) مشتبہ جہادی بندوق برداروں نے مالی سے ملحق نائجر کی سرحد کے قریب ایک گاوں پر دھاوا بول دیا۔ اور ’ہر متحرک چیز‘ کو فائرنگ کا نشانہ بنایا۔
نائجر حکومت کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ جنوب مغربی نائجر کے گاوں پر ہونے والے حملے میں ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر کم از کم 137ہو گئی ہے۔
یہ حملہ اس افریقی ملک میں حالیہ وقتوں میں مشتبہ جہادیوں کے ہاتھوں قتل عام کا سب سے بھیانک واقعہ ہے۔
حکومت کے ترجمان زکریا عبدالرحمان نے سرکاری ٹیلی ویزن پر ایک بیان میں کہا ”شہری آبادیوں کو منظم انداز میں نشانہ بنانے کے واقعات میں یہ مسلح غنڈے ظلم اور بربریت میں مزید ایک قدم آگے بڑھ گئے ہیں۔“
حکومت کا کہنا ہے کہ اس حملے میں کم از کم 137 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ابتدا میں اس نے ہلاکتوں کی تعداد 60 بتائی تھی۔
ایک مقامی عہدیدار نے بتایا کہ موٹر سائیکلوں پر سوار مسلح افراد نے مالی کی سرحد کے قریب واقع انتازائن، بکورت اور وسطانے گاوں پر حملہ کر دیا اور ”حرکت کرتی ہوئی دکھائی دینے والی ہر ایک چیز پر فائرنگ کر دی۔“
حکومتی ترجمان نے کہا ”حکومت ان لوگوں کی اس بربریت کی مذمت کرتی ہے جن کا نہ تو کسی چیز پر ایمان ہے اور نہ ہی قانون پر یقین۔“
حکومت نے اس واردات کے بعد منگل کے روز سے تین دنوں کے قومی سوگ کا اعلان کیا ہے۔ حکومت نے اپنے بیان میں کہا کہ خطے میں سکیورٹی میں اضافہ کیا جائے گا اور ’اس بزدلانہ اور مجرمانہ حرکت میں ملوث لوگوں کو‘ قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا۔
چند ہفتے قبل نئے صدر محمد بازوم کے منتخب ہونے کے بعد سے دہشت گردانہ حملوں اور قتل عام کے واقعات میں اضافہ ہو گیا ہے۔ اتوار کے روز ملک کی آئینی عدالت نے ان کے انتخاب کی تصدیق کردی تھی۔
گزشتہ ہفتے بھی نائجر، برکینافاسو اور مالی کو جوڑنے والے ’سہ سرحدی علاقے‘ تیلا باری خطے میں اسی طرح کے ایک حملے میں 66 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
صدر بازو م نے پیر کے روز ایک ٹوئٹ کے ذریعہ متاثرین کے اہل خانہ کے ساتھ تعزیت کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا”بانی بانگاو قتل عام کے واقعے کے بعد گزشتہ روز دہشت گردو ں نے ایک بار پھر اسی بربریت کا مظاہرہ کیا ہے اور انتازائن اور بکورت کی پرامن شہری آبادیوں کو نشانہ بنایا۔“
پیر کے روز ہونے والے دہشت گردانہ حملے نے جنوری میں ہوئے قتل عام کی خوفناک یادیں تازہ کردی ہیں جب تیلاباری کے مینگیز ضلع کے دو گاوں پر انتہاپسندوں نے حملہ کرکے کم ازکم 100 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔
یہ علاقہ جہادی سرگرمیوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے اور تجزیہ کاروں کے مطابق انسداد دہشت گردی کے اقدامات کی وجہ سے صورت حال مزید خراب ہوگئی ہے کیونکہ اس سے نسلی ملیشیا کو تقویت ملی ہے۔