نائجیریا (اصل میڈیا ڈیسک) نائجیریا کی ریاست نائجر میں ٹیگینا کے ایک مدرسے سے 30 مئی کو 136 بچوں کو تاوان کے لیے اغوا کیا گیا تھا۔ پندرہ بچے جون میں اغوا کاروں کے چنگل سے فرار ہوگئے تھے، چھ کی موت ہو گئی تھی جبکہ باقی کو اب رہائی مل گئی ہے۔
نائجیریا میں تاوان وصول کرنے کے لیے بچوں اور طلبہ کے بڑے پیمانے پر اغوا کے واقعات میں حالیہ مہینوں میں کافی تیزی آئی ہے۔
متعلقہ مدرسے کے صدر مدرس ابوبکر الحسن نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ وہ رہا کیے گئے طلبہ کی حقیقی تعداد کے بارے میں تو کچھ نہیں کہہ سکتے تاہم ”اب کوئی بھی طالب علم اغوا کاروں کی قید میں نہیں ہے۔”
انہوں نے بتایا کہ طلبہ کو گاڑیوں کے ذریعے واپس ان کے گھروں کو بھیجا جا رہا ہے۔ ابھی یہ واضح نہیں کہ کتنے طلبہ رہا کیے گئے ہیں۔
فتحی عبدالحئی نامی ایک شخص، جن کی 18سالہ بیٹی اور 15سالہ بیٹے کو اغوا کیا گیا تھا، نے بتایا کہ ان کے دونوں بچے آزاد کر دیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنے بچوں کو جلد از جلد دیکھنے کے لیے بے چین ہیں۔
بھاری ہتھیاروں سے لیس مجرموں کے ایک گروہ نے ٹیگینا میں 30 مئی کو ایک مدرسے پر حملہ کیا تھا۔ حملہ آور وہاں زیر تعلیم تقریباً ڈیڑھ سو بچوں میں سے 136کو اغوا کر کے اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ مدرسے کے عہدیداروں کے مطابق 15 بچے جون میں اغوا کاروں کے چنگل سے نکل جانے میں کامیاب ہو گئے تھے جبکہ چھ بچوں کی دوران قید موت واقع ہو گئی تھی۔
جولائی میں اغواکاروں نے اس شخص کو یرغمال بنا لیا تھا، جسے لوگوں نے طلبہ کی رہائی کو یقینی بنانے کے لیے زر تاوان دے کر بھیجا تھا۔ متاثرہ والدین اور مدرسے کی انتظامیہ نے اپنی اپنی جائیدادیں حتیٰ کہ مدرسے کی زمین فروخت کر کے پیسے جمع کیے تھے لیکن اغواکاروں نے بعد میں کہا تھا کہ یہ رقم کافی نہیں تھی۔
نائجیریا میں گزشتہ دسمبر سے ہی مختلف اسکولوں اور کالجوں پر حملے کر کے طلبا طالبات کو اغوا کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ شمالی نائجیریا میں دسمبر سے اب تک ایک ہزار سے زائد طلبہ کا اغوا کیا جا چکا ہے۔ کدونا، کاٹسینا، نائجر اور زمفارا کی ریاستوں میں اغوا کے واقعات سب سے زیادہ پیش آ رہے ہیں۔
اغوا کے ان بڑھتے ہوئے واقعات کو روکنے اور طلبہ کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہنے کی وجہ سے حکام کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
صدر محمدو بخاری نے گوکہ ان جرائم پیشہ گروہوں کے خلاف فوجی کارروائی اور فضائی حملوں کے احکامات دیے ہیں تاہم اغوا کارو ں کے حملوں کا سلسلہ رک نہیں سکا۔ بعض ریاستی حکومتوں نے مجرموں کو معافی دینے کی پیش کش بھی کی تاہم اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔