ابوجا (جیوڈیسک) نائیجریا نے مغوی طالبات کی رہائی کے لئے بوکو حرام کی جانب سے قیدیوں کے تبادلے کی تجویز مسترد کر دی ہے جبکہ بورنو ریاست میں فوجیوں نے اپنے ہی ایک کمانڈر پر فائرنگ کر دی ہے۔
ابوجا حکومت نے ایسے امکانات مسترد کر دیے ہیں کہ 276 مغوی طالبات کی رہائی کے بدلے میں مقید اسلامی جنگجو رہا کئے جا سکتے ہیں۔ ابوجا میں نائجیریا کے صدر گڈ لک جوناتھن کے ساتھ ملاقات کے بعد برطانوی فارن آفس مسنٹر سائمنڈز نے صحافیوں کو بتایا کہ ابوجا حکومت بوکوحرام کے ساتھ ایسے مذاکرات کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی جس کے تحت مغوی طالبات کی رہائی کے بدلے میں اس شدت پسند تنظیم کے جنگجوئوں کی رہائی کا امکان ہو۔ تاہم نائجیریا کی حکومت عسکریت پسندوں کے ساتھ ثالثی کی کوششیں جاری رکھے گی۔
مارک سائمنڈز کا مزید کہنا تھاکہ ایک بات مجھے واضح کر دی گئی ہے کہ صدر جوناتھن ملک میں قیام امن کے لئے جنگجوئوں کے ساتھ جاری مذاکرات کا تسلسل چاہتے ہیں۔ ان مغوی طالبات کی رہائی کے لئے جاری کوششوں میں امریکا کے علاوہ متعدد یورپی ممالک ابوجا کو انتظامی اور تیکنیکی مدد فراہم کر رہے ہیں۔
دوسری طرف نائجیریا کی وزارت دفاع نے کہا ہے کہ بوکوحرام کے شدت پسندوں نے چیبوک نامی اس گائوں میں ایک نیا حملہ کیا ہے جہاں سے پندرہ اپریل کو انہوں نے طالبات کو اغوا کیا تھا۔ بتایا گیا ہے کہ اس خونریز کارروائی میں چار فوجیوں کے علاوہ متعدد شدت پسند مارے گئے۔ تاہم چیبوک میں تعینات کچھ فوجیوں نے اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا ہے کہ اس کارروائی میں بارہ فوجی ہلاک ہوئے۔
اس تازہ کارروائی کے بعد ملکی فوج کے کچھ مشتعل فوجیوں نے اپنے ہی کمانڈر میجر جنرل احمد محمد پر فائرنگ کر دی۔ ان فوجیوں کا کہنا ہے کہ بوکوحرام کے خلاف لڑائی میں انہیں مناسب طریقے سے تیار نہیں کیا گیا ہے جس کے باعث ان کے ساتھی فوجیوں کی ہلاکتیں واقع ہو رہی ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ احمد محمد کی گاڑی پر اس وقت فائرنگ کی گئی جب وہ ہلاک شدگان فوجیوں کی تعزیت کے لئے بورنو ریاست کے دارالحکومت پہنچے۔
وزارت دفاع کے مطابق مشتعل فوجیوں نے احتجاجی طور پر ہوائی فائرنگ کی تھی نا کہ اپنے ہی کمانڈر کو نشانہ بنایا۔ فوج کے ترجمان نے اس واقعے کو ایک اندورنی معاملہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس پر عوامی سطح پر تشویش کی کوئی بات نہیں ہے۔
ناقدین کے بقول نائجیریا کے کچھ فوجیوں کی طرف سے اپنے ہی کمانڈر پر حملے سے واضح ہوتا ہے کہ بوکوحرام کے خلاف جاری لڑائی میں ملکی فوج کا مورال کافی پست ہے اور وہ ان شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کے لئے مناسب طریقے سے تیار نہیں ہے۔