تحریر : نگہت سہیل۔ پیرس تھون ھاتھ خریدا کرتے خوب کمائی ھو رھی تھی ساتھ ساتھ خیرات بھی نکلتی تھی مگر یہ کیا خواب تھا فکر کی بات تھی، باقی تمام رات حاجی صاحب نے جاگ کے گزاری ،صبح سویرے نماز پڑھ کر مولوی صاحب کے پاس جا بیٹھے اپنا خواب بیان کیا تو مولوی صاحب مسکرائے ،بولے حاجی صاحب یہ معاملہ معرفت کا ھے زرا اپنے ارد گرد غور سے دیکھین کہ ان چوک ھو گئ جب عرفان حاصل ھو جاے مسلہ حل سمجھین۔
چناچہ حاجی صاحب حسب معمول اپنے کام پے چلے گئے تمام نوکر سلام کر کے اپنے اپنے کام پے لگ گئے سب کچھ ٹھیک چل رھا تھا وہ خود کام کی نگرانی کی نیت سے کچن مین گئے مگر یہان بھی سب ٹھیک چل رھا تھا پھر غلطی کہان تھی نوکرون کو تنخواہ وقت پر ملتی تھی رشتے دارون کا بھی خیال رکھا جاتا تھا وہ اسی ادھیڑ بن مین غرق تھے غلطی سے جلیبی تلنے والے تیل کے کنستر سے ٹکرا گئے اسے سیدھا کرتے ھوئے دیکھا کے بھت سارے کیڑے تیل مین تیر رھے تھے۔
Sugar
انھین گھن آ گئی مگر چپ رھے کاروبار مین سب چلتا ھے کتنی بار وہ خود سمجھا چکے تھے مگر آج انھین کچھ عجیب کیون لگ رھا تھا ،یکایک ان کی نظر کھلی ھوئ چینی پر پڑی وھان بھی کچھ ویسی ھی صورت حال تھی مگر یہ تو روز کی بات ھے مگرنہی آج کچھ گڑبڑ تھی جو سکون نہین آرھا تھا بحر حال وہ اپنی جگہ آبیٹھے سب مایا ہے۔
دکان مین ھلکا ھلکا میوزک بج رھا تھا عطااللہ عیسی خیلوی کی آواز نے انھین اپنی جانب متوجہ کیا تمام معاملہ سمجھ مین آ چکا تھا حرص اور لالچ کی پٹی اب اتر چکی تھی،خریدے گئے قربانی کے قیمتی بیل کی اصل قی؛ت معلوم ھو چکی تھی اور جہنم کی اگ کی گرمی کا مزہ بھی۔