لیلة القدر، خیروبرکت کی رات

Shab e Qadr

Shab e Qadr

تحریر : حافظ کریم اللہ چشتی
رمضان المبارک بڑی برکتوں اور فضیلتوں والا مہینہ ہے۔ اس کے دن بھی مبارک اور اس کی راتوں کی فضیلتوں کا کیا کہنا۔ اس ماہ مقدس کی پاک راتوں میں ایک ایسی رات ہے جو لیلة القدر کہلاتی ہے۔ یہ بڑی خیروبرکت اور منزلت والی رات ہے۔ لیلة القدرماہ رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوںمیں ایک رات ہے۔ اس مبارک رات کو لیلة القدر کہنے کی پانچ وجوہات ہیں قدر کا معنی عظمت ہے۔ چونکہ یہ رات بھی عظمت والی ہے۔ اس لئے اسے لیلة القدر کہتے ہیں۔

قدرکا معنی عزت ہے یعنی جس کی کوئی قدروقیمت نہ ہووہ اس رات کی برکت سے صاحب قدرہوجاتاہے ۔قدرکامعنی حکم ہے چونکہ اس رات اشیاء کے متعلق ان کی حقیقتوں کے مطابق فیصلے کیے جاتے ہیں ۔قدرکے معنی تنگی ہے چونکہ اس رات زمین اپنی وسعت کے باوجود فرشتوں کی کثرت کی وجہ سے تنگ ہوجاتی ہے یااس میں قدروالی کتاب نازل ہوئی یاکہ اس میں قدروالے فرشتے نازل ہوتے ہیں یوں توماہ رمضان کاسارامہینہ مبارک ہے مگرلیلة القدرسارے رمضان پاک کی سردارہے اس کی شان تقدیس بیان کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے پوری سورة القدرنازل فرمائی۔ چنانچہ ارشادباری تعالیٰ ہے “بے شک ہم نے اس (قرآن)کو شب قدرمیں اتاراہے اورآپ کیاسمجھے ہیں (کہ) شب قدر کیاہے ؟شب قدر(فضیلت وبرکت اوراجرو ثواب میں)ہزارمہینوں سے بہترہے اس (رات)میں فرشتے اورروح الامین(جبرائیل )اپنے رب کے حکم سے (خیروبرکت کے)ہرامرکے ساتھ اترتے ہیں یہ(رات)طلوع فجرتک (سراسر)سلامتی ہے۔

حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس سے مروی ہے کہ حضورنبی کریمۖ کے پاس بنی اسرائیل کے ایک شخص کاتذکرہ ہواجس نے ایک ہزارماہ اللہ پاک کی راہ میں جہادکیاصحابہ کرام علہیم الرضوان کواس سے بہت تعجب ہوااورتمناکرنے لگے کاش ان کے لئے بھی ایساممکن ہوتاتوآپۖنے عرض کی اے میرے رب تونے میری امت کوکم عمر عطافرمائی ہے اب ان کے اعمال بھی کم ہوں گے تواللہ پاک نے آپۖکوشب قدرعطافرمائی اور ارشاد فرمایا”اے محمدۖشب قدرہزار مہینوں سے بہترہے جومیں نے تجھے اورتیری امت کوہرسال عطافرمائی ہے یہ رات ماہ رمضان میں تمہارے لئے اور قیامت تک آنے والے تمہارے امتیوں کے لئے ہے جوہزارمہینوں سے بہترہے ۔سورة القدرکے شان نزول کے بارے میں حضرت امام مالک نے ایک معتبرراوی سے یہ روایت اپنی کتاب میں بیان کی ہے کہ حضورۖ نے جب پہلی امتوں کی عمروں پرتوجہ کی تویہ بات معلوم ہوئی کہ اگلے لوگوں کی عمریں بہت زیادہ ہوتی تھیں توآپۖکوخیال گزراکہ میری امت کی عمریں انکے مقابلہ میں کم ہیں تونیکیاںبھی کم رہیں گی اورپھردرجات اورثواب میں بھی کم ہونگے تواللہ تعالیٰ نے یہ رات آپۖکوعنایت فرمائی اوراسکا ثواب ایک ہزارمہینے کی عبادت سے زیادہ دینے کاوعدہ فرمایا”۔(موطاامام مالک)یہ بہت ہی قدرومنزلت اورخیروبرکت کی حامل رات ہے قرآن کریم نے ہزارراتوں سے افضل قرار دیا ہے۔

لیلة القدرامت محمدیہۖ کے لئے ایک خاص انعام ہے جواس امت سے پہلے کسی امت کوعطانہیں کی گئی۔حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ آقائے دوجہاں سرورکون مکان ۖ نے ارشادفرمایا “بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے لیلةالقدرمیری امت ہی کوعطاکی اورتم سے پہلے لوگوں کو اس سے سرفرازنہیں کیا”۔شب قدر کے بارے میںپیران پیر حضرت سیدشیخ عبدالقادرجیلانی فرماتے ہیں کہ سیدالبشرحضرت آدم ہیں اورسیدالعرب حضور ۖہیں اور حضرت سلمان فارسی تمام اہل فارس کے سردارتھے اسی طرح سیّدالروم حضرت صہیب الرومی سیّدالحبش حضرت بلال حبشی اسی طرح تمام بستیوں میں سروری مکہ مکرمہ کووادیوں میں سب سے برتری وادی بیت المقدس کوحاصل ہے دنوں میں جمعة المبارک سیّدالایام ہے راتوںمیں شب قدرکوسروری حاصل ہے کتابوں میں قرآن کریم کواورقرآن پاک کی سورتوں میں سورہ البقرہ کواورسورة البقرہ میں آیت الکرسی کوسب آیات میں بزرگی اور سرداری حاصل ہے پتھروں میں سے حجراسودتمام پتھروں میں بزرگ ہے اورماہ زمزم کاکنواں ہرکنویں سے افضل ہے حضرت موسیٰ کاعصاہر عصا سے برترتھااورجس مچھلی کے پیٹ میں حضرت یونس رہے تھے وہ تمام مچھلیوں میں افضل تھی حضرت صالح کی اونٹنی تمام اونٹنیوں میں افضل تھی اوراسی طرح براق ہرگھوڑے سے افضل تھاحضرت سلیمان کی انگشتری تمام انگشتریوں سے برتراورافضل تھی اور ماہ رمضان تمام مہینوں کاسردارااوران سے بزرگ وافضل ہے اس سے معلوم ہواکہ لیلة القدر،سیداللیالی یعنی تمام راتوں کی سردار رات ہے۔

Ramadan

Ramadan

حضرت سیدناابوہریرہ سے مروی ہے کہ نبی کریمۖ نے ارشاد فرمایا کہ جوایمان کی وجہ سے اورثواب کے لئے شب قدرمیں قیام کرے اسکے گذشتہ گناہ بخش دیے جائیں گے۔درج بالاحدیث پاک میں لیلة القدرمیں عبادت کی تلقین کی گئی ہے ۔اوراس بات کی طرف بھی متوجہ کیاگیاہے کہ عبادت سے محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی مقصودہودکھاوااورریاکاری نہ ہواورآئندہ گناہ نہ کرنے کاعہدکرے اس شان سے عبادت کرنے والے کے لئے یہ رات سراپامغفرت بن کرآتی ہے لیکن وہ شخص محروم رہ جاتاہے جواس رات کوپائے اورعبادت نہ کرسکے ۔ حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ ماہ رمضان المبارک کی آمدپر حضورۖ نے ارشاد فرمایا۔”یہ ماہ جوتم پرآیاہے اس میں ایک رات ایسی ہے جوہزارمہینوں سے افضل ہے جوشخص اس رات سے محروم رہ گیاگویاوہ ساری خیرسے محروم رہااوراس رات کی بھلائی سے وہی شخص محروم رہ سکتاہے جوواقعتاََمحروم ہو”(ابن ماجہ)۔یہ رات کتنی عظمت والی ہے۔

واقعی وہ انسان کتنابدبخت ہے جواتنی بڑی نعمت کو غفلت کی وجہ سے گنوادے۔ہم معمولی معمولی باتوں کے لئے کتنی راتیں جاگ کر گزار لیتے ہیں تواَسّی80سال کی عبادت سے افضل بابرکت رات کے لئے جاگناکوئی زیادہ مشکل کام تونہیں”حضرت انس سے مروی ہے کہ حضورۖنے لیلة القدرکی فضیلت بیان کرتے ہوئے ارشادفرمایا”جب لیلة القدرہوتی ہے تو جبرائیل فرشتوں کی جماعت میں اترتے ہیں اورہر اس کھڑے بیٹھے بندے پرجواللہ تعالیٰ کاذکرکرتاہے،سلام بھیجتے ہیں۔ جب ان کی عیدکادن ہوتاہے یعنی عیدالفطرکادن تواللہ تعالیٰ ان بندوں سے اپنے فرشتوں پرفخرکرتے ہوئے فرماتاہے اے فرشتو!اُس مزدورکی اُجرت کیاہونی چاہیے جواپناکام پوراکردے؟ َتوفرشتے عرض کرتے ہیں اے رب کریم!اس کی اُجرت یہ ہے کہ اسے پوراپورااجر دیا جائے۔

اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ میرے بندوں اوربندیوں نے اپنے اوپرلازم عمل (فریضہ) کو پوراکرلیااوراب وہ مجھے پکارتے ہوئے اوردعاکرتے ہوئے عیدگاہ کی طرف نکلے ہیںمیرے عزت وجلال کرم اورعلومرتبت کی قسم! میں انکی دعاقبول کرونگااس وقت تک اللہ پاک فرماتاہے واپس ہوجائومیں نے تمہیں بخش دیاہے تمہارے گناہوں کونیکیوں میں تبدیل کردیاہے نبی کریمۖنے فرمایا کہ جب یہ لوگ اپنے گھروں کولوٹتے ہیں توانکے گناہ بخشے جاچکے ہیں ۔(بیہقی)حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہۖ نے فرمایاہے کہ”جب لیلة القدرہوتی ہے تواللہ تعالیٰ جبرائیل کوحکم دیتاہے اوروہ اللہ کے حکم سے فرشتوں کی جماعت کے ساتھ زمین کی طرف اترتے ہیں انکے پاس سبزپرچم ہوتاہے جسے وہ کعبے کی چھت پرنصب کردیتے ہیں حضرت جبرائیل کے سوپرَہیں جن سے وہ دوپرصرف اسی رات پھیلاتے ہیں جومشرق ومغرب سے آگے تک تجاوزکرجاتے ہیں حضرت جبرائیل امین فرشتوں کوحکم دیتے ہیں کہ امت مسلمہ میں پھیل جائوتوفرشتے ہرنمازی ،عبادت گزاراورذکرالٰہی کرنے والے کوسلام کرتے ہیں خواہ وہ بیٹھاہویا کھڑاہوان سے مصافحہ کرتے ہیں اوردعاکے وقت ان کے ساتھ آمین کہتے ہیں یہاں تک کہ صبح ہوجاتی ہے پھرجب صبح ہوجاتی ہے توجبرائیل امین فرشتوں کوآوازدے کرکہتے ہیں بس اب چلوفرشتے عرض کرتے ہیں کہ اے جبرائیل!اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہۖ کے مومنوںکی حاجتوں کے بارے میں کیافیصلہ فرمایا ہے ؟جبرائیل امین جواب دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انھیںنظررحمت سے سرفرازفرمایاہے اورانہیں معاف کردیاہے اوربخش دیا ہے سوائے چارشخصوں کے صحابہ کرام کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیایارسول اللہۖ وہ چاراشخاص کون ہیں ؟آپ ۖ نے فرمایاشراب کاعادی،ماںباپ کانافرمان رشتے توڑنے والا اور مشاحن ہم نے عرض کیایارسول اللہ ۖ مشاحن کون ہے توآپۖ نے فرمایاکہ جومصارم ہویعنی دل میں بغض رکھتاہے۔(غنیة الطالبین)
اس رات کوباقی راتوں پرچندوجہ سے بزرگی حاصل ہے اول تویہ کہ اس رات میں شام سے لیکرصبح تک تجلی الٰہی بندگان خداکیطرف متوجہ ہوتی رہتی ہے۔

دوسرے یہ کہ اس رات میںروح الامین اور ملائکہ آسمان سے صالحین اورعبادت کرنے والوں کی ملاقات کے لئے زمین پراترتے ہیں اورانکے آنے اورحاضرہونے کی وجہ سے عبادت میں وہ لذت اورکیفیت پیداہوتی ہے جودوسری راتوںکی عبادت میںپیدانہیں ہوتی تیسری یہ کہ قرآن مجیداسی رات میں نازل ہوا،چوتھے یہ کہ فرشتوں کی پیدائش اسی رات میں ہوئی پانچویں یہ کہ اسی رات بہشت میں باغات لگائے گئے ۔یہ ایک ایسی مبارک رات ہے کہ جس میں دریائے شورکاکڑواپانی بھی میٹھاہوجاتاہے ۔حضرت عثمان بن العاصکے ایک غلام نے جوکئی سال ملاح رہاہے آپ کوبتایاکہ میں نے دریامیں ایک عجیب بات دیکھی ہے جس سے عقل حیران ہے وہ عجیب بات یہ ہے کہ سال میںایک ایسی رات آتی ہے جس میں دریائے شورکاکڑواپانی میٹھا ہو جاتا ہے۔

حضرت عثمان بن العاصنے اُسے فرمایاکہ جسوقت وہ رات آئے تومجھے اطلاع دیناتاکہ میں معلوم کروں وہ کونسی رات ہے جب ستائیسویں رات رمضان پاک کی آئی توغلام نے اپنے آقاکوبتلایاکہ یہ وہ رات ہے جس میں دریائے شورکاپانی میٹھاہوجاتاہے۔(بحوالہ تفسیرعزیزی)۔ حضرت ابوسعیدخدری روایت کرتے ہیں کہ بیشک رسول اللہۖنے ابتدائے رمضان کے پہلے عشرے کااعتکاف کیاپھردوسرے عشرے کااعتکاف چھوٹے خیمہ میں کیااس اعتکاف کے دوران سرمبارک خیمہ سے نکال کرفرمایامیں نے پہلے عشرہ کااعتکاف کیاتومیں لیلة القدرکو تلاش کرتارہاپھرمیں نے دوسرے عشرے کا اعتکاف کیاتومجھ سے ایک فرشتہ نے آکرکہاکہ لیلة القدرتورمضان کے آخری عشرہ میں ہے اب جومیری سنت کے اتباع اعتکاف کاارادہ رکھتاہے اسکوچاہیے کہ آخری عشرہ میں اعتکاف کرے مجھے یہ رات خواب میں دکھائی گئی ہے لیکن بعدمیں اسکاخیال میرے ذہن سے محو کر دیا گیااورصبح کومیں نے دیکھاکہ میں گیلی کیچڑ جیسی زمین میں محوسجدہ ہوں لہذا!تم اس (لیلة القدر) کوآخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلا ش کروراوی کہتے ہیں کہ اس وقت بارش ہوئی تھی اورمسجدنبویۖ کی کھجور کے پتوں سے بنی ہوئی چھت کے ٹپکنے کی وجہ سے فرش پرکیچڑہوئی تھی اورمیں نے رسول اللہ ۖکی پیشانی مبارک پرپانی اورمٹی کااثردیکھاتھااوریہ اکیسویں تاریخ کی صبح تھی۔

Muhammad PBUH

Muhammad PBUH

حضرت ابن عمر روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ۖ کے چنداصحاب نے خواب میں شب قدرکورمضان کی آخری سات راتوں کودیکھااس سلسلہ میں نبی اکرم ۖ نے فرمایامیں تمہارے خوابوں میں مماثلت دیکھتاہوں تم میں سے شب قدرکوتلاش کرنے والاماہ رمضان کی آخری سات راتوں میں تلاش کرے۔ (مسلم شریف)حضرت زربن جیش نے حضرت ابی بن کعب سے کہاکہ آپ کے بھائی حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ جوشخص سال بھرمیں راتوںکوقیام کریگاوہ لیلة القدرکوپالے گاحضرت کعب نے فرمایااللہ تعالیٰ ابن مسعود پررحم فرمائیان کارادہ یہ تھاکہ کہیں لوگ ایک رات پرتکیہ کرکے نہ بیٹھ جائیںورنہ وہ خوب جانتے تھے کہ لیلة القدر رمضان میں ہی ہے اوریہ رات ستائیسویں رمضان کی ہے پھرانہوں نے بغیراِن شاء اللہ کہے قسم کھاکرکہاکہ لیلة القدررمضان کی ستائیسویں شب ہی ہے ۔میں نے کہااے ابوالمنذر!تم یہ بات اتنے یقین سے کس وجہ سے کہہ رہے ہو؟انہوں نے کہاکہ اس دلیل یااس نشانی پرجورسول اللہۖنے ہمیں بتائی ہے اوروہ یہ ہے کہ اس رات کے بعدجب سورج طلوع ہوتاہے تواس میں شعائیں نہیں ہوتیں”۔(مسلم شریف) حضرت معاویہ بن ابوسفیان سے روایت ہے کہ حضورنبی کریمۖنے فرمایاشب قدرستائیسویں رات کی ہوتی ہے ۔(ابودائود) حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں حضرت عمر کی خدمت میں حاضرہواوہاں دیگرصحابہ کرام علہیم الرضوان بھی تشریف فرماتھے حضرت عمر نے ان سے سوال کیاکہ رسول اللہ ۖ کے اس فرمان “شب قدر “کورمضان کے آخری عشر ے کی طاق راتوں میں تلاش کرواس کے بارے میں تم لوگوں کاکیاخیال ہے وہ کونسی رات ہوسکتی ہے؟کسی نے کہااکیسویں،کسی نے کہاپچیسویں،کسی نے کہا ستائیسویں، میں خاموش بیٹھاتھاحضرت عمر نے فرمایابھائی تم بھی کچھ بولومیں نے عرض کیاجناب آپ ہی نے توفرمایاتھاکہ جب یہ بولیں توتم نہ بولناآپ نے فرمایابھائی تمہیں تواسی لئے بلوایاگیاہے کہ تم بھی کچھ بولومیں نے عرض کیاکہ میں نے سناہے کہ اللہ تعالیٰ نے سات چیزوںکاذکرفرمایاہے چنانچہ سات آسمان پیدا فرمائے سات زمینیں پیدا فرمائیں انسان کی تخلیق سات درجات میں فرمائی۔

انسان کی غذازمین سے سات چیزیں پیدافرمائیں(اس لئے میری سمجھ میں تویہ آتاہے کہ شب قدرستائیسویں شب ہوگی)حضرت عمر نے فرمایاجوچیزیں تم نے ذکرکی ہیںانکاتوعلم ہمیں بھی ہے یہ بتلائوجوتم کہہ رہے ہوکہ انسان کی غذازمین سے سات چیزیں پیدافرمائیں وہ کیاہیں؟میں نے عرض کیاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشادمیںموجودہیں (ترجمہ) ہم نے عجیب طورپرزمین کوپھاڑاپھرہم نے اس میں غلہ اورانگوراورترکاری اورزیتون اورکھجوراورگنجان باغ اورمیوے اورچارہ پیداکیا میں نے عرض کیاکہ حد ائق سے مرادکھجوروں درختوں اورمیوئوں کے گنجان باغ ہیں اوراَبّ سے مرادزمین سے نکلنے والاچارہ ہے جوجانور کھاتے ہیں انسان نہیں ۔حضرت عمر نے اپنے ساتھیوں سے فرمایاکہ تم سے وہ بات نہ ہوسکی جواس بچہ نے کہہ دی جس کے سرکے بال بھی ابھی مکمل نہیں ہوئے بخدامیرابھی یہی خیال ہے جوکہہ رہاہے۔(شعب الایمان جلد٣صفحہ ٣٣٠) حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایاشب قدرکورمضان کے آخر ی عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ (بخاری شریف)حضرت عبادہ بن صامت سے مروی ہے کہ انہوں نے عرض کیا۔یارسول اللہۖہمیں شبِ قدرکے بارے میں بتائیںتوآپۖنے فرمایایہ رات ماہِ رمضان کے آخری عشرے میں ہوتی ہے۔

اس رات کوآخری عشرہ میں تلاش کرو۔بے شک یہ طاق راتوںیعنی اکیسویں، تئیسویں، پچیسویں،ستائیسویں،انتیسویں میں سے کوئی ایک یارمضان کی آخری رات ہوتی ہے جس شخص نے لیلة القدرمیں حالت ایمان اورطلب ثواب کی نیت سے قیام کیاپھراسے ساری رات کی توفیق دی گئی تواسکے اگلے اورپچھلے گناہ بخش دیے جاتے ہیں ۔(احمد،طبرانی)حضرت عکرمہ، حضرت ابن عباس روایت کرتے ہیںکہ رسول اللہ ۖنے شب قدرکے بارے میں ارشادفرمایا کہ یہ ایک خوشگوارومعتدل کھلی کھلی(گھٹن سے محفوظ)رات ہے نہ سردنہ گرم اوراسکی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس کے بعدصبح کوآفتاب شعاعوں کی تیزی کے بغیرطلوع ہوتاہے اوراس طرح ہوتاہے جیساکہ چودھویں کاچاندشیطان کے لئے روانہیں کہ اس دن کے سورج کے ساتھ نکلے۔(مسنداحمدبن حنبل)شب قدرتلاش کرنے کاخاص طریقہ اعتکاف ہے یعنی رمضان کے آخری عشرہ میں کسی مسجدمیں اللہ کویادکرنے کے لئے بیٹھ جائیں۔

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ میں نے (ایک دفعہ)آقاۖسے عرض کیایارسول اللہ ۖاگرمیں لیلة القدرکو پالوںتواس میں کیادعاکروں؟آپ ۖ نے ارشادفرمایا یوںکہواَللَّھُمَّ اِنَّکَ عَفُوّ”تُحِبُّ الْعَفْوَفَاعْفُ عَنِّیْ اے اللہ توبہت معاف فرمانے والاہے اوردرگزرکرنے کوپسندکرتاہے پس تومجھ کو معاف فرما۔ حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریمۖکے پاس حاضرہوااورعرض کیا۔اے اللہ کے نبی میں ایک ضعیف اوربیمارآدمی ہوں،میرے لئے (طویل)قیام بہت مشکل ہے لہذامیرے لیے کسی ایسی رات میں قیام کاحکم فرمائیں کہ جس میں اللہ تعالیٰ مجھے لیلة القدر عطا فرما دے آپۖنے فرمایا(پھرتو)تیرے لئے (رمضان کے آخری عشرہ کی)ساتویں رات جاگناضروری ہے ۔(مسنداحمد بن حنبل)

Hafiz Kareem Ullah Pai Khel Logo

Hafiz Kareem Ullah Pai Khel Logo

تحریر : حافظ کریم اللہ چشتی
پائی خیل ضلع میانوالی
0333.6828540