تحریر : شاہ بانو میر اے ابن آدم ایک تیری چاہت ہے اور ایک میری چاہت ہے۔ تو تھک جائے گا اُس میں جو تیری چاہت ہے پھر ہوگا وہی جو میری چاہت ہے۔ پھر میں بخش دوں گا تجھ کووہ جو تیری چاہت ہے ــ (حدیثِ قدسی ) رات بھر خوفزدہ کئے رکھا ملک کی عوام کو کہ کہیں کوئی دھماکہ نہ ہو جائےلاشیں گریں تو ملک یرغمال بن جائے گا ان کے ہاتھوں جولاش کے منتظر ہیں۔ دعاوؤں نے قبولیت پائی۔ بلآخر شبِ ظلمت ڈھلی اور اللہ پاک کی رحمتوں والی نورِ سحر نمودار ہوئی تو سکون ملا۔ سیاسی عدم برداشت کسی کی شہ پر اپنی سیاسی حکمت عملی کے زعم میں صوبائی دارلحکومت کل مفلوج رہا ۔ سنجیدہ مقصد رقص سے۔ میک اپ سے۔ رات گئے کنٹینر پر بہنوں بیٹیوں کو بٹھانے سے۔ ہنستے کھیلتے جوسسز پیتے ہوئے مہنگی سے مہنگی کاروں کی نمائش سے حاصل نہیں ہوتے کل میں بغور دیکھتی رہی کہ وہ “”عوام “” کہاں ہے؟
ان قیمتی گاڑیوں میں؟ کنٹینرز پر؟ یا پسینے میں شرابور دھمال ڈالتے ہویے سڑکوں پر؟ اس عوام کی حالت کل بھی یہی تھی آج بھی اسکی حیثیت یہی متعین کی گئی ہے؟ پھر تبدیلی کس بات کی؟ تبدیلی تو آتی اگر مہنگی گاڑیوں میں یہی سڑک پر رُلتے لوگ ہوتے اور وہ مہنگی گاڑیوں سے سخت گرمی میں سڑک پر ہوتے ۔ سیاست نے قدم قدم پر اپنا رخ موڑا نام بدلا سوچ بدلی یہ کامیاب لوگوں کا وطیرہ نہیں ۔ حضرت بلال کو لوگ پوچھتےکہ جب آپ کا مالک آپکو تپتی ریت پر لٹاتا ہے مارتا ہےآپ تکلیف سے کراہتے ہوئے “” احد “” احد “” کیوں پکارتے ہیں؟ آپ نے مسکرا کے جواب دیا اس لئے کہ وہ سمجھ لے کہ جتنا مرضی تشدد کر لے میں حق سے پھِِرنے والا نہیں۔ اسے اس لفظ سے چِڑ ہے اسی لئے کہتا ہوں کہ وہ اور پریشان ہو۔ ثابت قدمی پر انعام ملا کہ حضرت بلال آپ ﷺ کی سواری کی مہار پکڑ کر جنت میں داخل ہوں گے۔
Imaran Khan
یعنی آپ ﷺ سے بھی پہلے سبحان اللہ یہ تھے ہمارے اسلاف حق بات ہے تو پھر ساتھ کون کون ہےاس کی پرواہ نہیں کرتے تھے۔ بلکہ تن تنہا ڈٹ جاتے تھے یہاں تک کہ منزل خود چل کر آپکو مبارکباد دینے آتی ہے۔ عمران خان کو تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی ان کی مضبوط سیاسی قوت ارادی کیلئے کہ عمران خان نے دہائیوں پر مبنی پاکستان میں بوسیدہ سیاسی لوٹ مار سے عوام کو آگاہ کیا۔ اس مشکل مہم کا آغاز کر کے عوام کو وڈیروں جاگیر داروں چوھدریوں کے خوف سے آزاد کروایا اور ان کے حقوق بتائے جن سے وہ غریب لا علم تھے۔ عمران خان ہمیشہ زندہ رہیں گے تاریخی فلاحی کاموں کے حوالے سے اور نیم مردہ قوم کو سیاسی شعور دینے سے۔ مگر افسوس کہ سچ بولنے والا یہ مضبوط رہنما کچھ تخریبی سوچ رکھنے والوں کی سوچ کا شکار ہو کر نظریاتی کارکنان سے دور ہو کر روایتی امراء کی سیاست کرنے لگا۔ وہ اکیلا تھا تو حق بات کرتا تھا یقین ہوتا تھا۔
اب مختلف سوچیں ملیں سیاسی بڑے مفادات دکھائی دیے تو عمران خان کی زبان وہی مفاہمتی پیکج بولنے لگی جو ماضی میں ان کے سیاسی مخالفین (آج کے دوست) کا تھا ۔ یوں سیاسی تبدیلی معدوم ہوگئی۔ ماضی کے حکمران غاصب تھے ان کے خلافاحتجاج ٹھیک تھا۔ مگر اس وقت ایک بڑے ادارے کے کچھ افراد کی ایماء پر اور ان کے فرنٹ مین کے کہنے پر مسلسل ملک میں ریلیوں کی صورت انتشار کا کوئی جواز نہیں ماسوائے اس کے کہ بیرونی محاذوں پر جاری آپریشن کو کمزور کیا جائے ۔ یہ ہڑبونگ کیوں مچائی جا رہی ہے محض کسی بھی “” سیاسی تُکے “” کے انتظار میں اس ملک کو سیاسی تجربہ گاہ بنائے ہوئے ہیں کہ کوئی تُکا کامیاب ہوگیا تو حکومت گر جائے گی ۔ حکومت گر گئی تو آپ میں ےس اس وقت کس کے پاس ایسے دماغ ہیں جو موجودہ مشکل حالات کو سیاسی عسکری معاشی اقتصادی شعبوں میں سنبھال لیں گے؟ کیا صرف اقتدار پیش ِ نظر ہے؟
جبکہ عوام الناس بخوبی پرکھ سکتی ہے موجودہ دور کی تیز رفتار ترقی کو اور ماضی میں جامد سکوت کو ۔ ملک میں امن آرہا ہے خوشحالی دروازے پر کھڑی دستک دے رہی ہے۔ دشمن ممالک آپ کے ملک کی عوام کے منہ تک آیا ہوا ہاتھ کا نوالہ چھیننے کیلئے سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں ۔ فوج کے جوان سر دھڑ کی بازی لگا کر بے جگری سے شہادتیں حاصل کر کے مادر وطن کا دفاع کر رہے ہیں ۔ رینجرز پولیس دہشت گردوں کو ملک کے چپے چپے سے نکال باھر کرنے کا تہیہ کئے ہوئے ہیں ۔ ایسے حساس موقعہ اور صورتحال میں یہ سیاسی کھیل انتہائی مایوس کُن ہے ۔ یہ وقت ہے جماعتی سیاست سے بالاتر ہو کر اس حقیقت کو تسلیم کرنے کا کہ اللہ پاک کا خاص کرم ہے موجودہ حکمران پر کہ انہیں چُنا ملک کو بہتر بنانے کیلئے ۔ اس ملک کی شاندار شاہراہیں شیر شاہ سوری کی طرح طویل عرصے تک اگلی نسلوں کو بتائیں گی کہ یہ کس کے دور میں بنیں۔ ان کشادہ راہگزاروں سے اس ملک کی کتنی بڑی تعداد نے روزگار میں ترقی حاصل کی ۔ ملک دیکھتے ہی دیکھتے کہاں سے کہاں جا پہنچا ۔ اس وقت تو اندرونی خانہ جنگی نہیں یکجہتی کی ضرورت ہے۔
2018
سال 2018 الیکشن کا سال ہے اُس سے پہلے ملک میں جاری تیز رفتار ترقیاتی کاموں نے دشمن سوچوں کو نڈھال کر دیا ہے وہ کس قدر خوش ہو رہے ہوں گے سیاسی خانہ جنگی سے؟ سیاسی بے حسی کا خوفناک مظاہرہ ہم سوشل میڈیا پر دیکھ رہے ہیں کہ دونوں جانب سے خواتین پر رکیک کلمات لکھ کر ان کی تصاویر کو نشر کیا جا رہا ہے۔ بزدلی اور کمزوری کی علامت ہےایسی سیاست جو خواتین کے گرد گھومے کبھی اس ملک کی سیاست مرد کرتے تھے شیروں کی طرح گرجتے تھے اور چیتے کی طرح دشمن کو پھاڑ کھاتے تھے۔ آج ملک دشمن ایجنڈا ختم کر دیا گیا آج سیاست میں دشمنی اپنوں میں پیدا کر دی گئی اور کمزور ہدف خواتین بنا دی گئیں۔ وقت کی پُکار کشمیر کیلئے اظہار یکجہتی ہے۔ 55 روز سے وہاں کرفیو کا نفاذ ہے کھانے پینے کی اشیاء کی قلت ہے۔پہلے پیلیٹ گنز کا استعمال کر کے 8 ہزار نوجوانوں کو بینائی سے محروم کر دیا گیا۔
اب مودی سرکار نے مرچوں والے شیلز کے استعمال کا حکم دے دیا ہے؟ یہ کیا ہو رہا ہے اور ہم کیا کر رہے ہیں؟ ہم پر کشمیری بھائیوں کا مان ہے ہم پر بھروسہ ہے؟ ہمارے حکمران اور ان کے مخالفین جان لیں کہ اللہ کے نظام کو توڑا نہیں جا سکتا۔ تھک ہار کر صبر کرنا پڑے گا اگر اللہ پاک نے نواز کو عزت دینی ہے تو اسے کوئی ایک یا سب مل کر بھی نہیں ہٹا سکیں گے۔ حکومتی اکابرین ہوں یا ان کے میدان میں موجود سیاسی مخالفین سب کے سب پُر تعیش طرزِ زندگی رکھتے ہیں۔ بند ہوں یا کھلی ان کے طرز زندگی پران کے کچن پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ مگر فرق پڑتا ہے اُس عام غریب مفلوک الحال پاکستانی کو جس کا نام لے کر احتجاج کرتے ہوئے اسکی “” دیہاڑی گئی “” اس کے بچوں کی آج کی روٹی کا نوالہ چھین لیا۔ احتساب تو سب کا ہی ہونا چاہیے کہ یہاں کوئی کسی قانون کسی اصول کی پاسداری نہیں کر رہا۔ جلسوں کیلیۓ مینار پاکستان کو مختص کرنا چاہیے تا کہ عام شہری کی زندگی اجیرن نہ ہو۔ نہ ہی کوئی زچہ اور بچہ پھر سے جان سے جائے کہ ایمبولینس کو گزرنے کا راستہ نہیں ملا۔
امید ہے کہ اس کالم کو سیاستدان پڑھ کر ضرور سوچیں گے کہ صبر 2018 تک سیاسی قائدین کو کرنا ہوگا۔ قدرت سے مقابلہ ممکن نہیں ہے۔ سیاست کو زندگی کشمیر کیلئے جلسے نکال کر بھی دی جا سکتی ہے۔ صرف اور صرف کشمیر کیلئے اس وقت مظاہرے کریں ریلیاں نکالیں کہ بھارت کو پتہ چلے ہم یہاں زندہ ہیں اور اپنی جماعتوں کی فکر سے ہٹ کر اپنے کشمیری بہن بھائیوں کی فکر بھی رکھتے ہیں۔ اس نے مرچوں والے شیل استعمال کئے تو بہت برا ہوگا۔ سیاسی تحمل کا بہترین مظاہرہ کرنا ہوگا کیونکہ مستقبل کا کامیاب پاکستان عوام کے سامنے ہے۔ کل شب ِ ظلمت ڈھلی اور نورِ سحر نے اعلان کیا کہ ہوگا وہی جو اسکی چاہت ہے۔