تحریر : انجم صحرائی ہمارے انتخابی نظام میں ایک متوسط سیا سی کارکن کے لئے الیکشن لڑنا جو ئے شیر لا نے کے مترادف تھے لیکن یہ ایک حو صلہ کی بات ہے کہ ملکی تاریخ کے سبھی ہو نے والے انتخابات میں ہمیں ایسے سر پھرے انتخابی میدان میں نظر آ تے ہیں جو کرپشن ، لوٹ مار کے ظالما نہ نظام کے خلاف عوام کے حقوق کو مو ضوع بنا ئے اکیلے ہی انتخا بی دھمال ڈالتے نظر آ تے ہیں بڑی دیر کی بات ہے جب پرا ئیویٹ ٹی وی چینل نہیں تھے اور سرکاری پی ٹی وی بھی شا ئد عام نہیں ہوا تھا لوگ سچی خبریں سننے کے لئے شام آٹھ بجے BBC اردو سروس پر خبریں اور سیر بین سنا کرتے تھے انتخابات کا زما نہ تھا اور لا ہور انار کلی سے انتخابات میں حصہ لینے والے ایک امیدوار سلیم کر لا کا بڑا ذکر ہو تا تھا ان خبروں میں ۔ سلیم کرلا کا اصل نام تو کچھ اور تھا مگر چو نکہ وہ قد کے لمبے تھے یار لو گوں نے انہیں کرلا بنا دیا عام آ دمی تھے الیکشن میں حصہ لینے کا گناہ کر بیٹھے مذاق بن گئے ۔ اسی طرح کے سلیم اور مجھ جیسے عام سیا سی کر لے آپ کو اس ملک کی سیا سی تا ریخ میں بہت سے ملیں گے جو اپنے شعور ، آ گہی ، سیا سی سوجھ بوجھ اور اپنے طبقے کے مسائل کے ادراک کی بھاری گٹھری اٹھا ئے اکیلے ہی صحرا میں اذان دیتے نظر آئیں گے ۔انہین علم ہو تا ہے کہ الیکشن ان کے بس کی بات نہیں یہ جا نتے ہیں کہ ہمارے سماج کا وہ طبقہ جن کی وہ بات کر رہے ہیں وہ ان کی بات سننے کی بجا ئے انہیں ہی استہزاء اور مذاق کا نشا نہ بنا ئے گا مگر وہ یہ سب کچھ جا نتے ہو ئے سیاست کے میدان کر بلا میں وقت کے ظلم و جبر استحصال اور کرپٹ ظالما نہ نظام کے خلاف ” بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق “کے مصداق صف آرا ہو جا تے ہیں ایسا کیوں ہو تا ہے ؟ اس سوال کا جواب میں بھی ڈھونڈ رہا ہوں اور آپ بھی ڈھو نڈیئے۔
اور جیسے ہمارے سماج میں ڈاکٹر ، انجینئر ، حکیم ، کا شت کار ، دوکان دار ، مو چی ، نا ئی ، راج ، مستری ،گوالے اور مزدور مختلف کام کر نے والے طبقات ہیں اسی طرح سیاست دان بھی ایک طبقہ ہے ایک ایسا طبقہ جو لگتا ہے کہ اللہ میاں نے صرف اقتدار اور اختیار کے لئے ہی پیدا کیا ہے پوری دنیا گھوم آ ئیے کہیں آپ کو افراد کے کا غذات میں پیشہ کے خانے میں سیاست لکھا ہوا نہیں ملے گا یہ اعزاز بس ہمارے خطہ کو ہی ہے کہ ہمارے ہاں پیشہ ور سیا ستدان ہیں جو بڑے فخر کے سا تھ اپنے سر کاری اور غیر سرکاری کا غذات میں پیشہ سیا ست لکھواتے ہیں ریاست ان کے پیشہ سیاست کو تسلیم کرتے ہیں اور عوام ان پیشہ ور سیا ستدانوں کو بھاری مینڈیٹ دیتے ہیں اور حکومت و اقتدار اور اختیار کا چکر انہی پیشہ وروں کے گرد گھو متا ہے جسٹس رستم کیانی نے اپنے مضامین میں ایوب خان کو فیصل آباد کا گھنٹہ گھر لکھ کر بڑا نام کما یا تھا مگر کاش کو ئی جسٹس اقتدار و سیاست کے ان گھنٹہ گھروں کو بھی بے نقاب کرتا ۔ شورش کا شمیری نے ستر کی دھا ئی میں کہا تھا میرے وطن کی سیاست کا حال مت پو چھو طوائف گھری ہو ئی ہے تماش بینوں میں
آزای کی پون صدی گذ رنے کو ہے جمہوریت ہو یا مار شل لاء اسلام ہو یا شو شلزم ،آمریت ہو یا عوامی جمہوری مینڈیٹ نہ نظام بد لتا ہے اور نہ ہی چہرے ایسٹ انڈ یا کمپنی سے لے کر عمران خان تک کی تحریک انصاف تک میں بس انہی چہروں کی پذ یرائی ہے اور عوام ہیں کہ انہی کے شیدا ئی بلے بلے اور آ وے آ وے کے ترانے گاتے ترنگے لہراتے بیچ منجھدار کے غو طہ زن اور منزل ایک سراب ۔آج کا سیا سی منظر نا مہ بھی یہی ہے ” پارٹیاں بدلتے سیاستدان اور بغلیں بجا تی عوام ” کے عنوان سے میرا ایک کالم بہت پہلے شا ئع ہوا تھا جس میں میں نے مقا می سیا ستدانوں کی سیا سی تاریخ کو سمیٹا تھا میں نے اپنے کالم میں لکھا کہ ” پی پی پی سے مسلم لیگ (ق ) اور مسلم لیگ (ق )سے پی پی پی اور اب پی پی پی سے تحریک انصاف جوا ئن کر نے والے سردا ر بہادر خان سیہڑ اور ملک نیاز احمدجکھڑ بارے گو خبر نئی ہے مگرمعاف کیجئے اس میں خبر میں نیا پن کچھ بھی نہیں ہمارا میڈ یا بھی کمال کا ہے یوں لگتا ہے کہ انہو نی ہو گئی اور ایک بڑا بریک تھرو تھا جو اپنے سننے والوں اور پڑ ھنے والوں کو دیا ۔ حالا نکہ ایسا کچھ بھی انو کھا نہیںہوا یہ ہمار ی تا ریخ سے بے خبری ہے کہ ہم ان پی پی پی چھوڑ کر تحریک انصاف جوائن کر نے والوں کی نو حہ خوانی کر رہے ہیں ۔ ہمارے بعض دوست ان کی اس سیا سی قلا بازی کو نظریہ سے غداری قرار دے رہے ہیں جان سے امان پا ئوں تو پو چھوں کہ ان جا نے والوں کا نظریہ تھا کیا ؟ انہی کا ہی نہیں بلکہ جن آ قا ئوں کو چھوڑ کر یہ گئے ہیں اور جن کے دامن کو انہوں نے تھا ما ہے ان کے نظریا ت کیا ہیں ؟ ایک زما نہ ہوا کر تا تھا جب ایشیا سرخ ہے اور ایشیا سبز ہے کے نعرے لگا کرتے تھے
Muhammad Rustam Kayani
سبز اسلام پسندوں کا سلو گن ہو تا تھا اور سرخ شو شلشٹ نظریات کے اظہار کی اصطلا ح تھی ۔ایوب خان دور میں جنم لینے والی پی پی پی نے اسلامی شو شلزم کا نعرہ لگا کر ایک نئے سیا سی کلچر کو متعارف کرایا ۔ جے اے رحیم ، مبشر حسن ، شیخ رشید ،حنیف رامے اور معراج محمد خان جیسے با ئیں بازو کے دانشوروں نے اسلامی بنیاد پرستوں کے خلاف کا میاب مہم جو ئی کا آ غاز کیا اور یوں ملک میںسبز اور سرخ بنیا دوں پر ایک نظریا تی کشمکش شروع ہو ئی ۔ یہ وہ ز ما نہ تھا جب آج کی سپر پا ور امریکہ کو روس جیسی ایک بڑی سپر پاور کا چیلنج در پیش تھا اور ان دو بڑی سپر پاورز میں دنیا کی با لا دستی کے لئے سرد جنگ زوروں پہ تھی اور ہم سبز اور سرخ کے نعرے لگا تے دانستہ یا نا دانستہ ان دو بڑی قو توں کے مقا صد پو رے کر نے میں اپنا پورا زور لگا رہے تھے ۔ کہا جا سکتا ہے کہ اس زما نے میں نظریا تی سیا ست تھی یا پھر اس سے بھی پہلے قیام پا کستان سے بھی پہلے انگریز سا مراج کے خلاف چلا ئی جانے والی تحریک آزادی کو بھی ایک نظریا تی تحریک کہا جا سکتا ہے کہ اس تحریک میں سا مراج کی غلا می سے نجات کا نظریہ شا مل تھا ۔ پھر تحریک پا کستان کو بھی آپ ایک نظریاتی سیا سی تحریک کہہ سکتے ہیں ۔ تحریک پا کستان کو خواہ مذ ہبی نظریاتی سیا سی تحریک کہہ لیں یا پھر اسے معا شی سیا سی تحریک کا نام دے لیں یہ تھی ایک نظریا تی تحریک کہ ہر دو صورتوں میں انگریز سا مراج کے بعد ہندو بنیا سے آزاد مذ ہبی ، معا شی اور معا شر تی بنیا دوں پرالگ وطن کا حصول تحریک پا کستان کا نظریہ تھا۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آزاد وطن کے حصول کی تحریک میں بر صضیر پاک و ہند کے سبھی مسلمان اس نظریہ کے حامی نہیں تھے۔ آ با دی کے لحاط سے مسلمان اکثریت کے حامل علا قوں پر ایک الگ مسلم ریا ست کے قیام با رے مسلم لیگی نظریے کے علماء کا ایک بڑا طبقہ اس لئے مخا لف تھے کہ وہ سمجھتے تھے کہ پا کستان کا قیام ہند وستان کے مسلما نوں کی وحدت اور قوت کو تقسیم کر نے کا سبب بنے گا ۔ ایک اور طبقہ بھی تھا پاکستان مخالف اور وہ تھے پنجاب کے یو نینسٹ۔یو نینسٹ پا رٹی پنجاب کے جا گیرداروں کا وہ گروپ تھا جس کا نہمقصد آزادی تھا اور نہ ہی غلا می سے نجات ان کا مسئلہ تھا ۔ ان کا مقصد صرف اور صرف چڑ ھتے سورج کی پو جا کرنا اور آ نے والے اقتدارو دبار میں اپنی کر سی کی حفا ظت کر نا تھا ۔ پنجاب کے جا گیرداروں کے اس گروپ جسے یو نیسٹ مسلم لیگ کے نام سے قائم کیا گیا اس میں پنجاب کے ہندو ، سکھ اور مسلمان جا گیرداراور وڈیرے سبھی شا مل تھے ۔یو نیسٹ پا ر ٹی کے با نیان میں سکندر حیات ،فضلی حسین اور چھو ٹو رام اپنے اپنے علا قوں کے بڑے وڈیرے اور جا گیردار تو تھے ہی ان سب میں ایک اور بات بھی مشترکہ تھی اور وہ یہ کہ ان سبھی کا تعلق تاج بر طا نیہ کے وفادار اور مرا عات یا فتہ خاندا نوں سے تھا ۔ اور یو نیسٹ پا رٹی کے یہ سبھی با نیان حکو مت بر طا نیہ سے” سر ” کے خطاب یا فتہ تھے ۔تاج بر طا نیہ سے ان کی وفاداری کا اندازہ اس بات سے لگا یاجا سکتا ہے کہ 1942میں پنجاب کے ان خانوں ، چو ہد ریوں ،ملکوں اور ٹوانوں نے بھارت مو و منٹ کی مخالفت اور دوسری جنگ عظیم میں اتحادی قو توں کی
اس وقت حما یت کی جب انگریز سا مراج کے لئے خلاف کی جا نے والی جدو جہد کے جرم میں آزادی کے متوالے کا لے پا نی سزا ئیں کاٹ رہے تھے اور پھا نسی گھاٹ پہ نعرہ تکبیر بلند کرتے ہو ئے شہادت کی موت کو گلے لگا رہے تھے ۔ اس وقت یہی جا گیردار اور وڈیرے تھے جن کی وفا داروں کے سبب انگریز بہادر ا ن وطن فروش سپو توں کو خطا بات اور جا گیروں سے نواز رہا تھا ۔ کہا جا سکتا ہے کہ یہ جاگیردار طبقہ صرف اقتدارو اختیار کے حصول کے لئے کچھ بھی کر نے کو تیار رہتا تھا اور تیار رہتا ہے ۔ سر سکند حیات اور یو نیسٹ پا ر ٹی نے پہلی بار “I am Punjabi first then a Muslim”; کا نعرہ لگا یا . ایسے نعرے ہمیں آج بھی سننے کو ملتے ہیں ہمارے وسیب کے ایک بزرگ قوم پرست راہنما جب بھی مو قع ملتا ہے کہا کرتے ہیں کہ” میں پنج ہزار سال پرانا سرا ئیکی تے چودہ سو سال توںمسلمان ہاں” تحریک پا کستان کے دوران جب سردار سکند حیات نے مسلم لیگ کی بڑ ھتی ہو ئی مقبو لیت محسوس کی تو 1936 میں یونیسٹ پا رٹی اور مسلم لیگ کے در میان لکھنو میں” سکندر جناح پیکٹ ” کے تحت ان جا گیر داروں اور وڈیروں نے مسلم لیگ کے سا تھ اپنے روبط بڑ ھا نے شروع کئے ۔ لیکن اس کے با وجود یہ جا گیردار اور وڈیرے چو نکہ تاج بر طا نیہ کے وفادار اور خطاب یا فتہ تھے ۔ان کی جا گیریں اور ذیلداریاں انگریز سا مراج کی مر ہون منت تھیں اس لئے تحریک پا کستان میں ان کے رول کو مثبت قرار نہیں دیا جا سکتا ۔۔۔