تحریر : انجینئر افتخار چودھری کل نہال ہاشمی عدالت پہنچیں گے مجھے پورا یقین ہے وہ کہیں گے مائی باپ روزہ تھا لگ رہا تھا مجھے معاف کر دیں۔دیکھتے ہیں عدالت ان کا عذر قبول کرتی ہے یا نہیں۔ نہیں کی حالت میں ایک اور مشاہد اللہ ایک اور پرویز اور ایک اور فاطمی ۔بات صرف پتھر مار کر شیشہ توڑنے کی ہوتی اور وہ بھی اپنا تو پاگل نہیں قرار دیا جا سکتا پتہ نہیں نون لیگ میں اس قدر مرایہ شکن کہاں سے آ گئے ہیں کہ کبھی فوج اور کبھی عدلیہ پر چڑھ دوڑتے ہیں۔کسی بندے نے ہمسائے کی کھڑکی کا شیشہ توڑ دیا مالک مکان شکائت لے کر اس کے با پ کے پاس گیا کہا حضور دیکھئے آپ کے برخور دار نے میرے گھر کی کھڑکی کا شیشہ توڑ دیا ہے لڑکے کے باپ کا جواب تھا کوئی بات نہیں پاگل ہے آئیندہ ایسا نہیں کرے گا مضروبہ کھڑکی کا مالک کہنے لگا واہ! کیسا پاگل ہے جو شیشہ بھی توڑتا ہے تو کسی اور کے گھر کے پاگل تو تب مانوں گا کہ اپنے گھر کا شیشہ توڑے۔جناب نہال ہاشمی بھولے تو ضرور ہیں مگر اتنے بھی نہیںکسی محفل میں غصے کی حالت میں یوں بڑ بڑائے کہ عدلیہ کے لتے لئے ویسے کل جب عدالت جائیں تو جا کر کہیں کہ عزت مآب جج صاحب رمضان میں غصے کی حالت میں تو فلسطین کے مفتی نے طلاقیں بھی نہ قبول کرنے کا اعلان کیا ہے اللہ واسطے مجھے معاف کر دیجئے روزہ تھا اور لگ رہا تھا بس معافی چاہتا ہوں ۔سچ پوچھئے میں نئی بولدی میرے وچ یار بولدا۔یہ ان سے کہلوائی گئی ہے شنید ہے موصوف کا دور بھی ختم ہونے کو تھا لہذہ کارتوس چلا دیا گیا۔
میاں صاحب کی یہ معصوم عادتیں ہمیں پتہ ہے زیادہ نہیں تھوڑا عرصہ تو ان کے ساتھ گزرا ہے۔یہ اگر پہلا واقعہ ہوتا تو ہم بھی اسے ایک غلطی سمجھ کر ذہن سے بات نکال دیتے، ابھی رات نو بجے وائیس آف امریکہ پر ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے میں نے کہا تھا کہ مشاہد اللہ بولے تو چھپر پھاڑ کر بولے حضرت پرویز رشید کی پرواز بھی فوج تک پہنچی ڈان لیکس کی زد میں فاطمی آئے اب مسلم لیگ نون نے ایک تیر چلوا کر تیر انداز کی قربانی دے دی ہے مقصد کچھ اور تھا ۔یہ ان کی روائت ہے بریف کیس سے کام نہ چلے تو عدالتوں پر چڑھ دوڑتے ہیں یہ ماضی قریب کی بات ہے۔
قارئین بات اتنی بھی سادہ نہیں ہے نون کی خواہش ہے کہ وہ ٹکر مار کر مرے اسے پتہ ہے کہ حکومت تو ہم کر ہی رہے ہیں مگر جس ڈھٹائی سے کر رہے ہیں وہ پورے جگ کو پتہ ہے۔وہ کسے کیمتھے لگ کر جانا چاہتے ہیں۔ ہمارے جدہ کے ایک دوست ریاض بخاری ہیں پیپلز پارٹی کے صدر ہیں ایک اور دوست چودھری اکرم کے بارے میں کہا کرتے ہیں کہ سڑک بہانویں کنی صاف ہووے چودھری اکرم گڈی کچے تئے لاوے ہی لاوے(سڑک جتنی بھی صاف ہو چودھری اکرم گاڑی کچے میں اتارے ہی اتارے)یہی حال ہمارے میاں صاحب کا ہے اللہ نے انہیں پیپلز پارٹی کی شدید محنت سے پانچ سال پورے کرنے کے قریب لا چھوڑا ہے ان کی خواہش ہے کہ سیاسی شہید بن کر جائوں یہ انتحاب ان کے اپنے پاس ہے اس لئے کہ گزشتہ تین سال سے عوام ان سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ میاں جی جان دیو اگر آج پی ٹی وی پر آ کر کہہ دیں کہ میں استعفی دیتا ہوں اور اپنے آپ کو عوام کی عدالت میں پیش کرتا ہوں تو ان کا قد بڑھ سکتا ہے۔اب بات کرتے ہیں جناب نہال ہاشمی کی۔ جنہوں نے نونہالگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حب میاں میں اس قدر بھڑکیں لگائیں کہ آج الطاف حسین کی یاد آ گئی اوئے ججا توں ساڈے میاں دے منڈے نوں ہتھ پایا تئے میں پھٹیاں پن دیاں گا۔بات تجربات کی ہے ایک بار ٢٠٠٠ میں جدہ میں ایک اخبار کے رپورٹر کی حیثیت سے میں نے ان ننھے شہزادوں کے بارے میں کچھ لکھ دیا اللہ خوش رکھے مکہ مکرمہ کے ایک دوست جو میاں صاحبان کے قریب تھے انہوں نے مجھے دھمکی دی میاں صاحب کے بارے میں جو کچھ بھی لکھیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں لیکن حسین اور حسن کے بارے میں لکھا تو مجھ سے برا کوئی نہ ہو گا۔
وقت چلتا رہا اور ایک دن میں اور شہباز دین بٹ جیل میں اکٹھے ہو گئے ہم جمہوریت کی بحالی کے لئے آمر کے ہتھے چڑھ گئے اور وقت اور آگے بڑھا ایک دن بٹ مجھے گکھڑ میں ملا اور کہا ان لوگوں نے مجھے استعمال کیا ہے اور پہچاننے سے بھی انکار کر دیا ہے میں نے کہا پگلے دیویاں اگر بلیوں کو یاد رکھنے لگیں تو ہو گیا کام چل کم کر۔ نہال ہاشمی بھی ایک پتلی کی طرح استعمال ہو گئے۔ہماری بد قسمتیاں بھی کمال کی ہوتی ہیں لیڈر ساتھی نہیں چمچے ڈھونڈتے ہیں آپ ان کے بارے میں کوئی بات کر کے تو دیکھیں۔الٹا لٹکا دیں گے۔شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بن گئے نہال ہاشمی۔حضور کیا ہوا جو نوجوان جدہ سے اسلام آباد آ گئے۔کون سی مسجد شعبی میں تراویح میں آپ کی شرکت نہ ہونے کی وجہ سے عبداللہ بسفر ناراض ہو جائیں گے یا حرم میں عبدالرحمن سدیس اداس ہو گئے ہوں گے عدالت نہ بلایا ہے آ گئے ہیں کوئی احسان نہیں کیا عدالتیں ابو تراب کو بھی بلاتی رہی ہیں۔
اس ملک کی عدالتوں نے وزیر اعظم کو لٹکایا بھی ہے اور گھر بھی بھیجا ہے۔آپ آئے تو کس آسمان کے کنگرے گر گئے؟جواب دیجئے۔نبیل گبول کہہ رہے تھے کہ کراچی کا ایک اور سینیٹر گیا حضور یہ تھے تو کراچی کے مگر پنجاب کے کوٹے سے سینیٹر بنے ہیں یہ چیزیں صوبائی تعلق سے بالا تر ہیں ہاں ان کی تقریر میں کراچی کے بڑے سپیکر کی یاد آ گئی جس کی چند ماہ سے بولتی بند ہے اور اللہ کے فضل سے کراچی کی رونقیں واپس آ گئی ہیں۔نہال ہاشمی نے جو بڑھک لگائی ہے یہ نئی نہیں ہے ایک سندھی وڈیرے نے بھی اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات کی تھی شائد انہیں یہ وہم ہو کہ میری بات بھی چل جائے گی۔ایسا نہیں ہوتا آپ کو اپنی حد میں رہنا ہو گا۔کل نہال ہاشمی عدالت پہنچیں گے مجھے پورا یقین ہے وہ کہیں گے مائی باپ روزہ تھا لگ رہا تھا مجھے معاف کر دیں۔دیکھتے ہیں عدالت ان کا عذر قبول کرتی ہے یا نہیں۔ نہیں کی حالت میں ایک اور مشاہد اللہ ایک اور پرویز اور ایک اور فاطمی ۔میرے خیال میں نہال فرمائیں گے۔ مائی لارڈ روزہ تھا لگ رہا تھا۔