نائن الیون کے 13 سال بعد بھی القاعدہ اور دیگر گروپ فعال ہیں: بی بی سی

BBC

BBC

لندن (جیوڈیسک) گیارہ ستمبر کو نیویارک میں ہونے والے القاعدہ کے نائن الیون حملے کو 13 سال گزر چکے ہیں مگر القاعدہ، اس کے حامی اور دوسرے جہادی گروہ آج بھی فعال ہیں۔ رپورٹ کے مطابق سوال ہے کہ یہ جہادی گروہ کون ہیں؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ کئی ممالک کی مسلسل اجتماعی کوششوں کے باوجود ان کی طاقت کم کیوں نہیں ہو رہی؟ 1989 میں افغانستان سے سوویت یونین کے انخلا کے بعد اسامہ بن لادن نے عبداللہ اعظم کے ساتھ مل کر ’القاعدہ‘ نام کی ایک تنظیم بنائی۔

مگر آج القاعدہ کی اصل شکل باقی نہیں بچی۔ اسامہ بن لادن کو پاکستان میں 2011 میں ڈھونڈ کر ہلاک کر دیا گیا اور ان کے وارث ایمن الظواہری بنے جو ایک زمانے میں مصر میں ایک سرجن کے طور پر کام کرتے تھے اور ان دنوں روپوش ہیں۔ ایمن الظواہری سے جہادیوں کی شکایت ہے کہ وہ تیزی سے موجودہ واقعات کے مقابلے میں غیر متعلقہ ہوتے جا رہے ہیں۔ گزشتہ ایک دہائی میں القاعدہ کے سابق سربراہ اور کمانڈر بڑی تعداد میں یا تو حراست میں لے لیے گئے یا مار دیے گئے۔ کئی کی موت متنازعہ ڈرون حملے میں ہوئی۔ اصل القاعدہ کے باقی ارکان کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ سال 2001 میں افغانستان سے بھاگ کر پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بس گئے تھے۔

مگر دنیا میں شدت پسندوں کا مقابلہ کرنے والوں کے پاس خوشی منانے کی کوئی خاص وجہ نہیں بچی ہے۔ انہوں نے القاعدہ کو مکمل طور پر تباہ کرنے کی بجائے ان میں پھوٹ ڈالنے اور انہیں تتر بتر کرنے کی حکمت عملی اختیار کی۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ القاعدہ مشرق وسطیٰ، افریقہ اور ایشیا میں بہت سی مختلف تنظیموں کی شکل میں نمودار ہونا شروع ہو گئی جبکہ یورپ میں بھی جہادی حامی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔

نتیجہ یہ کہ حملے مسلسل جاری ہیں، بھلے ہی وہ حملے گیارہ ستمبر جتنے تباہ کن نا ہوں۔ رپورٹ کے مطابق شدت پسندی کو فروغ دینے والے سب سے اہم عوامل میں سے ایک ہے خراب انتظامیہ اور اس کے اوپر عوام کا عدم اطمینان۔ مسلم اکثریت والے ممالک میں حکومت اور ان کی سکیورٹی فورسز کو بدعنوانی، تشدد اور بدسلوکی سے جوڑا جاتا رہا ہے۔ ان حالات میں جہادیوں کے حامیوں کی تعداد میں اضافہ ہونا فطری ہے۔