تحریر: علی عمران شاہین آج سے ٹھیک 14 سال پہلے کی کہانی… 11 ستمبر 2001ء کی ایک روشن صبح… دنیا کی واحد سپر پاور امریکہ کے مختلف ہوائی اڈوں سے 4 مسافر جہاز اغوا ہو گئے۔ چند لمحوں بعد یہ جہاز دنیا کے ایک بڑے کاروباری مرکز ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور دنیا کے سب سے بڑے جنگی مرکز پنٹاگون سے جا ٹکرائے۔ فولادی قلعہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر حیرت انگیز طور پر مسافر جہازوں کے ٹکرانے سے ریت کے ذرات اور دھوئیں میں تبدیل ہو کر زمین بوس ہو گیا تو ایک عالم ورطہ حیرت میں ڈوب گیا کہ اتنی مضبوط، بلند و بالا عالی شان عمارتیں آخر کیسے یوں دھڑام سے نیچے آن گریں؟…
عمارتوں کا گرنا تھا کہ ان کے مالک فرعون زمانہ امریکہ نے آئو دیکھا نہ تائو…الزام سیدھا افغانستان کے سر منڈھ کر وہاں کے حکمراں ملا محمد عمر کو اسامہ بن لادن کو سارے ساتھیوںسمیت اپنے حوالے کرنے کا حکم صادر کر دیا۔یہ تو امریکہ کجادنیا کے کسی انسان کے تصور میں بھی نہیں تھا کہ معاشی، اقتصادی، عسکری بلکہ ہر لحاظ سے پسماندہ ترین اور سارے عالم کی جانب سے حقیر ترین سمجھی جانے والی مخلوق افغان قوم ،انکار کی جرأت کرے گی۔
سو جب افغانوں کا انکار دیکھا گیاتو ان سب کی جانب سے چیونٹی کو مسل کر نام و نشان بھی مٹانے کا ارادہ کر لیا گیا۔ لیکن… خود کو خدا سمجھنے والوں پر خوف اس قدر تھا کہ” ایک چیونٹی” کو مارنے کیلئے ساری دنیا کے ہاتھی لشکر اکٹھے ہو گئے۔ پھر… دنیا کے طاقتور ترین انسان یعنی ہر وقت ہاتھ میں ایٹمی بٹن رکھ کر کسی بھی وقت ساری دنیا کو ایک نہیں، 6 بار خاکستر کرنے کی قوت رکھنے کے دعوے دار امریکی صدر نے تیسری دنیا کے ایک اور نحیف و نزار ملک پاکستان کے اس صدر کو فون کیا جس کے بارے میں بعد میں اس نے کہا کہ ”نائن الیون سے پہلے تو مجھے یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ پاکستان کے صدرکا نام کیا ہے؟
Mullah Umar
فون کیا تھا… بس یہی کہ ”ہمارا ساتھ دو… ورنہ… پتھر کے دور میں دھکیل دیا جائے گا۔”یہ کیسی جنگ تھی کہ جس میں ایک طرف سارا عالم اپنے تمام تر شیطانی لائو لشکر لے کر اس مخلوق کے خلاف اتر چکا تھا کہ جس کا معمولی ساوجود تک کوئی تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھا۔ لیکن ان سب کے حکم کو جوتے کی نوک پر رکھنے والے ملا محمد عمر نے چادر کندھے پر رکھی اور نامعلوم منزل کی طرف روانہ ہو گئے تو امریکہ نے ان کے ملک پر ایٹم بم کے بعد دنیا کے طاقتور ترین ہتھیار ڈیزی کٹر کی بارش شروع کی…
افغان سرزمین پر پہلا فوجی اس وقت اترا جب اچھی طرح جان پھٹک کر نتیجہ اخذ کر لیا گیاکہ اب یہاں ان کے پائوں میں چبھنے والا کانٹا بھی نہیں بچا… امریکہ نے بتایا کہ افغانستان پر حملے سے لے کر مکمل قبضہ تک 40دن کی بمباری اور زمین پر اترنے تک اس کے صرف 2 فوجی ہلاک ہوئے …پھر سن 2001ء کے اختتام تک حامد کرزئی کی شکل میں ایک ”افغان” حکمران کابل میں بٹھا دیا گیا۔ طاقت کے اس نشے میں چور امریکہ نے سوا سال بعد ہی یعنی 22 مارچ 2003ء کو عراق پرحملہ کر دیا۔ امریکہ کو اندازہ نہیں تھاکہ افغانستان میں اس پر اس کے بعد کیا بیتے گی؟سو 2003ء میں جب امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر جوابی حملے شروع ہوئے تو سب اتحادیوں کا ہی رواں رواں کانپنے لگا۔ دیکھتے ہی دیکھتے جب ان اتحادیوں کی لاشوں سے بھرے جہاز ان کے ملکوں میں جانا شروع ہوئے تو ایک ایک کر کے کل کے اتحادی ہاتھ کھڑے کر کے پیچھے بن دیکھے سر پٹ بھاگنا شروع ہو گئے ۔ امریکہ نے اس کے بعد افغانستان کے کتنے علاقوں میں کتنے ناموں سے کتنے آپریشن کئے، شاید سارے گنے بھی نہ جا سکیں اور شاید امریکیوں کو بھی ان کے نام یاد نہیں ہوں گے۔
امریکیوں نے بتایا 22 فروری 2004ء کو اس وقت قندھار میں ان کا پہلا جنگی ہیلی کاپٹر تباہ ہوا جس کا 45 سالہ پائلٹ بھی مارا گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے امریکی اور اتحادی ہوائی جہازوں اور ہیلی کاپٹروں کو ”حادثات پر حادثات” پیش آنے لگے حتیٰ کہ امریکہ نے تادم تحریر تسلیم کیا ہے کہ افغانستان میں ان کے 121 چھوٹے بڑے ہیلی کاپٹر، 38 اتحادی جنگی جہاز اور ٹھیکے پر لئے گئے الگ سے 28 جہاز تباہ ہوئے۔ (اصل تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔)روس کے خلاف افغان جہاد کی کامیابی کو امریکی سٹنگر میزائلوں کا نتیجہ قراردینے والے آج تک یہ بتانے سے قاصر ہو کر گونگے بہرے بن چکے ہیں کہ آخر امریکہ اور اتحادیوں کی اس تسلیم کردہ تباہی کا سبب کون سا سٹنگر تھا اور وہ کون سا ملک تھا جو اب کی بار ان افغانوں کی مدد کر رہا تھا؟ یقینا اللہ تعالیٰ نے ایسے ناہنجاروں کے ناپاک جبڑوں پر اس ناقابل شکست قوم کے ہاتھوں ایک ایسا لاجواب تھپڑ رسید کرنا تھا کہ ۔
Amerca
اگر روس کے خلاف جہاد کی کامیابی امریکہ کی مرہون منت تھی تو اب بتائو کہ امریکہ اور اس کے 48 اتحادیوں کیخلاف کامیابی کس کی مرہون منت ہے۔؟” یہاںروسیوں سے بڑھ کر امریکیوں کے بڑے بڑے بے شمار فوجی قافلے تباہ ہوئے تووہیںوسیع و عریض کیمپ ایک ایک دھماکے سے صفحہ ہستی سے مٹا دیئے گئے۔ امریکی اسلحہ ساز اور ایمونیشن ساز کمپنیاں اور ان کے انجینئر دن رات افغان قوم کو زیر کرنے کیلئے نئے سے نیا ہتھیار اور مضبوط سے مضبوط جنگی سازو سامان تیار کرنے پر جتے رہے ہیں۔پھر دنیا نے یہ بھی تسلیم کیا کہ افغانستان میں امریکہ جس قدر اسلحہ اور سامان جنگ لایا تھا، وہ تاریخ عالم میں کسی بھی دوسرے ملک میں لایاجانے والا سب سے بڑا انبار ہے۔ آج سے کچھ ہی عرصہ پہلے اپنے ہی اس سامان جنگ کا کچرا جب امریکہ نے فروخت کرنا شروع کیا تو امریکہ دنیا کا سب سے بڑا کباڑیہ قرار پایا۔
نائن الیون کے چند ہی برسوں بعد منظر بدلا، محیر العقول مناظردنیا نے یوں دیکھے کہ امریکہ ملا محمد عمر کے ان ساتھیوں کو جنہیں وہ عبرت کا نشان بنانے کیلئے گوانتانامو کے بدترین قید خانے میں لے گیا تھا، خود ہی اپنے جہازوں میں وی آئی پی مہمان بنا کر قطر کے اس دفتر میں لا کر بٹھا رہا تھا جو اس نے وہاں خود تعمیرکرا کر دیا تھا۔ دنیا دیکھ رہی تھی کہ وہی امریکہ کبھی جرمنی، کبھی ترکی، کبھی سعودی عرب، کبھی مالدیپ تو اب پاکستان میں اپنی دانست میں کیڑوں مکوڑوں سے بھی بدتر مخلوق کے سامنے چاروں شانے چت ہو کر کسی طرح واپسی کے لئے مذاکرات کیلئے منتیں کر رہا تھا۔
پاکستان کو پتھر کے دور میں دھکیلنے کی دھمکیاں دینے والے آج پاکستان کے دروازے پر ہاتھ باندھے کھڑے اس انتظار میں ہیں کہ کب اس سے کوئی امن و سلامتی کی آواز بلند ہو اور ان کی سوکھی زبانیں کچھ تھوک نکال کر حلق کو تر کر سکیں۔ اپنا ہی تھوکا چاٹنے والوں کے ہاتھوں ملا محمد عمر اور ان کے ساتھی اب دہشت گرد سے مسلح حریت پسند قرار پا چکے ہیں۔ امریکہ کسی بھی ملک میں فوج اتارنے سے ہمیشہ کیلئے انکاری ہو چکا ہے۔ 14سال کے عرصے میںایک عالم نے پھٹی آنکھوں سے دیکھا کہ امریکہ کے لاکھوں ”مرد میدان”پاگل ہو کر ہسپتالوں، گلیوں اور بازاروں میں ایڑیاں رگڑ رہے ہیں۔
بیسیوں ہزار جانیں بچانے کیلئے کینیڈا اور دیگر ملکوں کا رخ کر چکے، دنیا کی تاریخ پھر یوں بدلی کہ امریکہ نے اپنی فوج میں ہیجڑوں کی بھرتی کا فیصلہ سنا دیا کہ مرد و خواتین تو کم پڑ کر اب ناپید ہو چکے تھے۔ نائن الیون کی 14ویں برسی پر بھی سر گھٹنوں میں دیئے روتے کرلاتے امریکیوں اور ان کے صدر کو دیکھ کر جنرل حمید گل کے وہ الفاظ یاد آ رہے ہیں کہ جو انہوں نے افغانستان پر حملے کے بعد کہے تھے ”دنیا دیکھے گی، بش نہیں ہو گا اور ملا محمد عمر ہو گا۔” بش تو بہت پہلے جا چکا۔ امریکہ میں 14 سال بعد بھی نائن الیون کا ماتم جاری و ساری ہے تو افغان ایک بار پھرفاتح قرار پائے ہیں۔ افغان باقی، کہسار باقی… الحکم للہ و الملک للہ۔