دنیا جانتی ہے کہ نائن الیون آغاز مکمل طور پر دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے لیے تھا۔ پھر یہ نہ صرف آغاز تھا بلکہ ان لوگوں کو الگ چھانٹ کر رکھ دینے کی کسوٹی بھی تھی جو ایک طرف نائن الیون کے بہانے ایک دوسرے کی پیٹھ تھپ تھپانے، ایک دوسرے کا ہاتھ تھامنے اور ایک دوسرے کو مزید مضبوط کرنے کی غرض سے منظر عام پر آئے ہیں دوسری طرف وہ لوگ بھی اسی بہانے سامنے آئے جو بظاہر ملت کے بہی خواہ ہیں لیکن درپردہ وہی ہیں جو ملت کے بد خواہ بھی ہیں۔ اس پس منظر میں چند لوگ ظاہر ہوچکے اور کچھ باقی ہیں۔ چند خاموش رہے اور کچھ بول اٹھے لیکن اس سب کے درمیان کچھ ایسے لوگ بھی منظر عام پر آئے جو حق و انصاف کی بات کرنے والے تھے۔ اور یہ وہ لوگ ہیں جو گرچہ بکھرے ہوئے ہیں، منظم نہیں ہیں اس کے باوجود وہ حق کے علمبردار ہیں انہیں اشخاص میں ایک نام “رابرٹ فسک”ہے۔
جن کا صاف کہنا ہے کہ دنیا ایک بڑے مقصد کے تحت دنیا کو دوحصوں میں تقسیم کرنے کی غرض سے 9/11 کا واقعہ اسٹیج پلے کیا گیا۔اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر ان سوالوں کے جواب دیے جائیں جن سے دنیا واقف ہوا چاہتی ہے۔ معروف برطانوی صحافی رابرٹ فسک کا ایک آرٹیکل آ گیا جو 25/ اگست 2007ء کو برطانوی اخبار ”دی انڈیپینڈنٹ (THE INDEPENDENT) میں شائع ہوا تھا۔ آرٹیکل کا عنوان ہے، “EVEN I QUESTION” THE TRUTH ABOUT 9/11 (مجھے بھی نائن الیون کی ”حقیقت” پر شک ہے) مضمون کے آغاز میں رابرٹ فسک کہتا ہے۔”میں جہاں کہیں بھی جاتا اور مشرق وسطیٰ پر کوئی لیکچر دیتا ہوں، ہمیشہ سامعین کے ہجوم میں سے ایک نہ ایک ”ہذیانی کیفیت میں مبتلا” شخص اٹھ کھڑا ہوتا اور غضب ناک لہجے میں مجھ سے سوال کرتا ہے۔
تم کھل کر صاف صاف لفظوں میں کیوں نہیں بتاتے کہ نائن الیون کس کا کیا دھرا ہے؟ سچ بولتے ہوئے ڈرتے کیوں ہو؟ کیوں نہیں بتاتے کہ بش انتظامیہ (یا سی آئی اے یا موساد یا کسی بھی اور) نے ٹوئن ٹاورز اڑا دیئے؟ تم نائن الیون کے پس پردہ چھپی اصل حقیقت لوگوں کو کیوں نہیں بتاتے؟” ایسے ہی ایک لیکچر کے دوران ایک شخص نے یہی کچھ دہرایا۔ میں نے دبے لفظوں میں کہا کہ اسکا اندازہ غلط بھی ہوسکتا ہے تو وہ گالیاں دیتا اور غصے میں کرسیوں کو ٹھڈے مارتا ہوا ہال سے باہر نکل گیا۔ آگے چل کر رابرٹ فسک لکھتا ہے۔ ”لیکن میں واقعی مسلسل تبدیل ہوتے سرکاری موقف سے پریشان ہوں۔ میں ان عمومی سوالوں کا ذکر نہیں کر رہا کہ پینٹاگون پر حملہ کرنیوالے طیارے کے اجزاء ، جیسے انجن وغیرہ کہاں غائب ہو گئے؟ پینسلوانیا کی فلائٹ 93 کی تحقیقات میں شامل سرکاری افسران کے منہ کیوں سی دیئے گئے ہیں۔
Plane (Flight 93) field.
جب یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ طیارہ (فلائٹ 93) پورے کا پورا ایک کھیت میں آگرا تو پھر اس کا ملبہ میلوں دور تک کیوں پھیلا ہوا تھا؟ میں تو ٹوئن ٹاورز کے بارے میں صرف سائنسی نقطہ نظر سے سوالات رکھتا ہوں۔ مثلاً یہ درست ہے کہ تیل زیادہ سے زیادہ 820 ڈگری سینٹی گریڈ کی حرارت پیدا کرتا ہے تو پھر ٹوئن ٹاورز کے وہ فولادی بیم کیسے پگھل کر ٹوٹ گرے جنہیں پگھلنے کیلئے 1480 سینٹی گریڈ کی حرارت چاہیے؟ اور یہ سب کچھ صرف آٹھ سے دس سیکنڈ کے دوران ہو گیا اور تیسرے ٹاور، ورلڈ ٹریڈ سینٹر بلڈنگ 7 یا سالمن برادرز بلڈنگ کی کہانی کیا ہے جو پانچ بجکر بیس منٹ پر، صرف 6.6 سیکنڈ کے اندر خود اپنے ہی قدموں پر ڈھیر ہوگئی؟ یہ اتنی عمدگی کے ساتھ کیونکر زمیں بوس ہوگئی جبکہ اسے کسی طیارے نے چھوا بھی نہیں؟ امریکن نیشنل انسٹیٹیوٹ آف اسٹینڈرڈ اینڈ ٹیکنالوجی سے کہا گیا تھا۔
کہ وہ تینوں عمارتوں کی تباہی کے اسباب کا تجزیہ کرے۔ انہوں نے آج تک ورلڈ ٹریڈ سینٹر 7 کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔ مکینیکل انجینئرنگ کے دو ممتاز امریکی پروفیسر جو بہرحال ہذیانی اور جنونی نہیں، اس بنیاد پر قانونی چارہ جوئی کر رہے ہیں کہ یہ رپورٹ فراڈ اور دھوکے پر مبنی ہو سکتی ہے۔وہ کہتے ہیں صحافیانہ نقطہ نظر سے بھی نائن الیون کے بارے میں کئی شکوک و شبہات ہیں۔ چلیں رپورٹرز کی ان ابتدائی رپورٹس کو نظرانداز کردیتے ہیں کہ انہوں نے ٹاورز کے اندر زور دار دھماکے سنے تھے، ممکن ہے وہ فولادی بیم تڑخنے کی آوازیں ہوں اور پھر یہ ابتدائی رپورٹ کہ ٹوئن ٹاورز کے نواح میں مین ہٹن کے علاقے میں، طیارے کے عملے میں شامل کسی خاتون کی لاش ملی تھی جس کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔ مان لیتے ہیں کہ یہ سب سنی سنائی کہانیاں ہیں۔ جیسے سی آئی اے نے شروع میں جن عرب خود کش ہائی جیکروں کی فہرست جاری کی تھی۔
ان میں سے تین ابھی تک زندہ سلامت ہیں اور مشرق وسطیٰ میں امن چین سے رہ رہے ہیں لیکن اس پراسرار خط کی کہانی کیا ہے جو امریکی انتظامیہ کے مطابق مصری نڑاد ہائی جیکر عطا محمد نے اپنے ساتھیوں کو لکھا تھا اور جس میں اس نے اپنے ساتھیوں کو فجر کی نماز پڑھنے کی تلقین کے ساتھ ساتھ نماز کی پوری عبارت بھی سکھائی تھی، کیا کسی مسلمان کو اسکی ضرورت ہوتی ہے مجھے دہرانے دیجئے کہ میں سازشی کہانیوں پر یقین کرنے والا نہیں، لیکن دنیا کے ہر شخص کی طرح مجھے بھی پتہ چلنا چاہیے کہ نائن الیون کی اصل کہانی کیا ہے، کیونکہ اسی سے اس احمقانہ جنونی جنگ کا شعلہ بھڑکا جسے ”وار آن ٹیرر” کا نام دیا گیا ہے اور جس نے افغانستان، عراق اور بڑی حد تک مشرق وسطیٰ میں تباہی مچا دی ہے۔ بش کے ایک مشیر کارل روو نے ایک بار کہا تھا۔ ”اب ہم ایک عظیم الشان طاقت ہیں۔
Robert Fisk
ہم اپنی حقیقتیں خود تخلیق کرتے ہیں” درست، لیکن ہمیں بھی تو کچھ بتا دیجئے تاکہ لوگ گالیاں دینا اور کرسیوں کو ٹھڈے مارنا چھوڑ دیں۔” یہ اس رابرٹ فسک کے مضمون کے اقتباسات ہیں جو صحافت کی دنیا میں ایک بلند مقام رکھتا ہے۔ یہ شخص مذہباً اور نسلاً انگریز ہے، نہ لمبی عبا پہنتا ہے نہ سر پر سیاہ بھاری پگڑی رکھتا ہے اور نہ ہی کسی اسلامی جماعت سے اس کا کوئی دور کا رشتہ ہے۔ یہ وہ شخص ہے جو طالبان اور القاعدہ سے بھی کوئی رشتہ و تعلق نہیں رکھتا ۔لیکن یہ وہ شخص ہے جو کھلی آنکھوں سے سب کو دیکھنے اور تعصب سے پاک واقعات کا تجزیہ کرنے کا ہنر جانتا ہے۔ وہ کہتا ہے مجھے سو فیصد یقین ہے کہ وہ دن دور نہیں جب ”نائن الیون” کی سازش کا تانا بانا بننے والوں میں سے کسی کا ضمیر چٹخنے لگے گا اور وہ دیوانوں کی طرح گریباں چاک کئے، دہائی دیتا ہوا مین ہٹن کی سڑکوں پر نکل آئے گا۔
کہ ”یہ سب ہمارا کیا دھرا ہے۔ خدا کے لیے مجھے اس آگ سے بچاؤ جو میرے اندر بھڑک رہی ہے” لیکن لبرل فاشسٹ اس وقت بھی امریکی چہرے کی کالک دھونے کے لیے دلائل تراشنے لگیں گے کیونکہ ان کا رزق اسی چاکری میں لکھ دیا گیا ہے اور مردار خوری کی جبلت رکھنے والا گدھ، کبھی اپنے اندر شاہین کی خصلت پیدا نہیں کرسکتا۔ رچرڈ فالک بھی یہی کہتے رہیمتذکرہ واقعہ اور رابرٹ فسک کے تجزیہ کے علاوہ اقوام متحدہ کے اہلکار رچرڈ فاک نے بھی 9/11 کے حادثہ کو امریکی منصوبہ قرار دیا تھا۔ فلسطین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تفتیش کے لیے مقرر خصوصی تفتیشی افسر رچرڈ فاک نے اپنے بلاگ میں لکھا تھا کہ 9/11 کا حادثہ امریکی حکومت کا تیار کردہ ہے اور یہ اس حادثہ کے حقائق پر امریکی حکام نے جانتے بوجھتے ہوئے پردہ ڈالا ہے۔ انھوں نے اپنے بلاگ میں مغربی ذرائع ابلاغ کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے یہ بھی لکھا تھا۔
کہ 9/11 کے حادثہ کے بعد جاری کئے گئے سرکاری بیانات میں واضح تضادات موجود تھے جنہیں نظر انداز کر دیا گیا اور سچ کو چھپانے کی بھر پور کوشش کی گئی۔ یہاں بھی یہ واضح رہنا چاہیے کہ رچرڈ فالک بہ ذات خود ایک امریکی یہودی ہیں لیکن وہ اسرائیل کی چیرہ دستیوں کے خلاف آواز بلند کرتے رہتے ہیں۔ وہ امریکا کی پرنسٹن یونیورسٹی میں بین الاقوامی قانون کے پروفیسر ایمریطس ہیں۔ انہوں نے بیس کتابیں لکھی ہیں یا وہ ان کے معاون مصنف ہیں اورتقریباً بیس کتب کے وہ مدیر یا معاون مدیر ہیں۔ اس سب کے باوجود توجہ طلب پہلو ہے کہ جب ایک یہودی نے غیر جانب داری کا رویہ اختیار کرتے ہوئے اپنی ذمہ داری کو بہ خوبی انجام دینے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ اس کو اپنے عہدے سے برطرف کرنے کی کوششیں کی جانے لگیں۔ سوال یہ ہے کہ حقیقت کو حقیقت بیان کرنے کی جرت کے عوض اگر اتنی بڑی سزا دی جائے توپھر کیوں تنقید و آزادی کے علمبردار اپنے اوپر آنچ آتے ہی دوسروں کی تمام آزادیاں سلب کرلیتے ہیں۔
U.S.
اور رون پال بھی اسی پر مہر ثبت کرتے ہیں واقعات کے پس منظر میں یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ ملک عزیز کا میڈیا ہو یا دیگر اُن ممالک کا جن پر بالواسطہ یا بلاواسطہ امریکہ اور اسرائیل کا فکری تسلط قائم ہوتا جا رہا ہے۔ دوسرے الفاظ میں وہ پالیسیز نافذ ہوتی جا رہی ہیںجن کا ہدف پہلے نمبر پر مسلمان ہیں اور اس کے بعد وہ تمام افراداورجماعتیں ہیں جواقتدار پر مبنی نظام و افراد کی کمیوں پر سوالات کھڑے کرتی ہیں یا ان کے شانہ بشانہ چلنا پسند نہیں کرتیں۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک کے الیکٹرانک میڈیا نے بھی اور دیگر ہمنوا ممالک نے بھی اس خبر کو پوری طرح نظر انداز کر دیا جس میں سابق امریکی صدارتی امیدوار رون پاول نے نائن الیون حملوں کو اسرائیلی کارروائی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس انسانیت سوز واقعہ میں موساد کے ملوث ہونے کے کئی شواہد موجود ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ایک امریکی اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نائن الیون حملوں کے حوالے سے اب کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہ حملے امریکہ کی اندرونی نہیں بلکہ اسرائیلی بیرونی کارروائی ہے۔ اب تک ملنے والے تمام شواہد سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے یہودی لابی کے ساتھ مل کر یہ کاروائی کی۔ خیال رہے کہ نائن الیون کے واقعہ کے بعد امریکہ اور نیٹو کے فوجی دستوں نے القاعدہ نیٹ ورک کو ختم کرنے کے بہانے افغانستان میں وسیع پیمانے پر خونریزی کی ہے۔ اس کے نتیجہ میں اب تک ہزاروں افغان مرد خواتین اور بچے شہید اور لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ واضح رہے کہ ایران کے صدر احمدی نژاد نے نائن الیون کی برسی پر عالمی برادری کے سامنے یہ سوال رکھا تھا کہ دنیا نے گیارہ ستمبر کے واقعات کو لے کر جن دس لاکھ سے زیادہ افراد کو مارا گیا ہے۔
ان کی بابت کیوں خاموشی اختیار کرلی گئی ہے؟ قابل ذکر ہے کہ نائن الیون حملوں کی آڑ میں عراق و افغانستان اور دنیا بھر کے مسلم ممالک میں ہزاروں افراد کے قتل عام کے بعد بھی امریکہ اس واقعہ کے بارے میں تحفظات دور کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ معاملہ یہ ہے کہ دونوں ٹاورذ میں موجود فرنیچر اور دیگر سازو سامان کی حالت درست، جبکہ ہزاروں لوگوں کی لاشیں جادوئی طریقہ سے غائب ہونے سے شکوک و شبہات میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ “ذرائع کے مطابق 11 ستمبر 2001 کو دہشت گرد حملوں میں گرنے والی امریکہ کی دوبڑی عمارتوں میں موجود فرنیچر و دیگر سازو سامان کی حالت سے لگتا ہے کہ عمارتیں گری ہی نہیں جبکہ انسانی لاشوں کے بکھرے ہوئے ٹکڑے اور ایک ہزار سے زائد لاشوں کا نام و نشان تک نہ ملنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان لاشوں کو جادوئی طریقہ سے فضا میں ہی غائب کیا گیا ہے۔
Terrorism
یہاں تک کہ نہ کسی انسان کے اعضاء مل سکے اور نہ ہی ہڈی کا ٹکڑا اور نہ ہی انسانی جلد کا کوئی حصہ ثبوت کے طور پر عمارتوں میں موجود ہے۔ یہ وہ واقعہ ہے جو رون پال بیان کرتے ہیں اور یہی وہ دہشت گردی کے خلاف منظم جدوجہد ہے جہاں سے صلیبی جنگوں کا ایک بار پھر آغاز ہوا چاہتا ہے۔ اب ان جنگوں میں کون کس کا حلیف اور حریف بنے گا یہ وقت اور حالات واضح کرتے چلے جائیں گے۔ اس سب کے باوجود امن پسند حضرات ہر وقت اور ہر زمانے میں زندہ دل اور روشن دماغی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حقیقت اور سچائی کو واضح کرتے رہیں گے اور اُن انتہا پسندوں اور فاشسٹوں کا ساتھ نہیں دیں گے جن کا مقصد ہی فساد فی الارض پھیلانا اور امن و امان کو خراب کرنا ہے۔ ان حالات میں مسلمانوں کو چاہیے کہ احسان کی روش پر قائم رہتے ہوئے جن آزمائشوں سے بھی آج وہ دوچار ہیں ان سے نکلنے کی ممکنہ تدابیر اختیار کریں۔
احسان کی روش پر اس لیے قائم رہیں کیونکہ احسان کی روش ہی فساد فی الارض سے روکتی ہے، لوگوں کے درمیان اخوت و محبت کے جذبہ کو پروان چڑھاتی ہے، ضرورت مندوں کی مدد کا جذبہ پیدا کرتی ہے، اور احسان ہی وہ ذریعہ ہے جو دنیا و آخرت کی کامیابی کا ضامن ہے۔ کہا کہ جو مال اللہ نے تجھے دیا ہے، اس سے آخرت کا گھر بنانے کی فکر کر اور دْنیا میں سے بھی اپنا حصہ فراموش نہ کر۔ احسان کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے اور زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش نہ کر، اللہ مفسدوں کو پسند نہیں کرتا”(القَصَص:٧٧)۔ آج دنیا یہ بھی دیکھ چکی ہے۔
کہ” عوام کی حکومت عوام کے ذریعہ “کے نعرے بلند کرنے والے اپنے ہی خول میں کس قدر تنگ نظرثابت ہوئے ہیں۔ اور وجہ یہ ہے کہ ان نعروں کی آڑ میں وہ اپنے مفادکے لیے سرگرم عمل ہیں۔ آج دنیا نے یہ بھی دیکھ لیا ہے کہ ایک اہم ترین ملک جہاں جہوری نظام کے تحت حکومت منتخب ہوئی اس کو کس طرح ختم کروا دیا جاتا ہے درحقیقیت آج اُس جمہوری نظام اور اُس پر عمل پیرا افراد کی شدت سے کمی محسوس کی جا رہی ہے جو اپنے قول و فعل میں یکسانیت رکھنے والے ہوں۔ ضرورت ہے کہ اس طرح کے لوگوں کی تلاش جاری رکھی جائے۔ کیا آپ کو اپنے آس پاس اقدار پر مبنی سیاست میں سرگرم افراد نظر آتے ہیں۔ تحریر : محمد آصف اقبال maiqbaldelhi@gmail.com maiqbaldelhi.blogspot.com