کراچی (اصل میڈیا ڈیسک) فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی (فشریز) کے سابق چیئرمین نثار مورائی کے حوالے سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی دستخط شدہ رپورٹ محکمہ داخلہ سندھ کی ویب سائٹ پر جاری کردی گئی ہے۔
جے آئی ٹی رپورٹ میں نثار مورائی کی جانب سے سابق صوبائی وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا کو اسلحہ بطور تحفہ دینے کا انکشاف کیا گیا ہے۔
نثار مورائی نے جے آئی ٹی کے سامنے انکشاف کیا کہ انہوں نے ایک رائفل اور دو شاٹ گن ذوالفقار مرزا کو تحفے میں دیں۔
انہوں نے بتایا کہ’ مجھے بھی اسلحہ رکھنے کا شوق ہے، میرے پاس 8 کلاشنکوف ، 2 ایم پی 4 رائفل، ٹرپل ٹو رائفل اور 6 شاٹ گن موجود ہیں’۔
جے آئی ٹی کے سامنے نثار مورائی نے انکشاف کیا کہ ذوالفقار مرزا نے سرجانی ٹاؤن میں زمینوں پر قبضہ کیا اور ڈی ایس پی جاوید عباس اور انسپیکٹر مصدق رفیق نے قبضے کرنے میں ان کی مددکی۔
رپورٹ کے مطابق نثار مورائی اپنے ماتحت سلطان قمر سے ماہانہ بھتہ وصول کرتے رہے ہیں جب کہ نثارمورائی نے اعتراف کیا ہے کہ وہ ذوالفقار مرزا کے کہنے پر عزیر بلوچ سے کئی بار ملتے رہے۔
نثار مورائی کے بقول سابق صوبائی وزیر داخلہ نےچھاچھرو بارڈر سے منشیات اسمگل بھی کی۔
سابق چیئرمین فشریز نے جے آئی ٹی کو بتایا کہ ذوالفقار مرزا نے مہاجر قومی موومنٹ حقیقی کے چیئرمین آفاق احمدکو 2 بار 25،25 لاکھ روپے دیے اور ذوالفقار مرزا نے آفاق احمد کو اسلحہ بھی گفٹ کیا، آفاق احمد کو انہوں نے7 کلاشنکوف دیں جب کہ مجھے ہتھیار تحفے میں دیے۔
مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ کے مطابق نثار مورائی نے پیٹرول پمپ اور آئل فیکٹری میں سرمایہ کاری کی ہے، اس کے علاوہ نثار مورائی کے پاس ڈیفنس میں ہزار گز کا بنگلہ اور فلیٹ، حیدرآباد میں 500 گز کا بنگلہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق نثار مورائی نے محکمہ فشریز میں80 غیر قانونی 17 اور 18 گریڈ افسران کی جعلی بھرتیاں بھی کیں۔
یاد رہے کہ نثار مورائی کو مارچ 2016 میں اسلام آباد سے گرفتار کیا گیا تھا، ان پر فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی میں گھپلے،غبن، منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کے الزامات تھے۔
خیال رہے کہ سندھ حکومت نے عزیر بلوچ، نثار مورائی اور سانحہ بلدیہ فیکٹری کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم ( جے آئی ٹی) کی رپورٹس جاری کردی ہیں۔
وفاقی وزیر علی زیدی کی جانب سے گذشتہ ماہ سانحہ بلدیہ، لیاری گینگ وار کے عزیر بلوچ اور سابق چئیرمین فشریز نثارمورائی کی جے آئی ٹی رپورٹس پبلک نہ کرنے سے متعلق چیف سیکرٹری سندھ کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں توہین عدالت کی درخواست دائر کی گئی تھی۔
بعد ازاں سندھ حکومت نے اعلان کیا تھا کہ تینوں جے آئی ٹی رپورٹس پیرکو پبلک کردی جائیں گی۔