انسان کائنات کا ایک عظیم شاہکار

Humans

Humans

تحریر : اختر سردار چودھری

میں اس کائنات کا ایک عظیم شاہکار ہوں، کائنات سے وسیع اور سمندر سے زیادہ گہرا ہوں۔ مجھے اشرف المخلوقات کا خطاب دیا گیا ہے۔آئیے دیکھتے ہیں کہ میں کس حد تک اس خطاب کا حقدار ہوں ۔مادی اعتبار سے تو میں بہت معمولی سی چیز ہوں اور جس خام مال سے بنا ہوں وہ دنیا کے کسی ذی روح سے مختلف نہیں۔کاربن، ہائیڈروجن، نائٹروجن، گندھک فاسفورس، کیلشم، میگنیشم اور لوہا میرے اہم ترین اجزائے ترکیبی ہیں۔ میرے جسم میں اتنا کاربن ہے کہ اس سے نو ہزار پنسلیں بنائی جا سکتی ہیں ۔اتنی گندھک ہوتی ہے کہ اس سے ڈیڑھ سو پٹاخے بنائے جا سکتے ہیں اور اتنا فاسفورس ہوتا ہے کہ 2200 دیا سلائی (تیلیاں )بنائی جا سکتی ہیں ۔میری ہڈیوں میں چونا ہوتا ہے اس سے ایک درمیانے درجہ کے کمرہ میں سفیدی کی جا سکتی ہے۔

میرے خون میں اتنا لوہا ہوتا ہے کہ اس سے ایک انچ کی دو میخیں بن سکتی ہیں۔میرے جسم میں چمچہ بھر میگنیشم ہوتی ہے ۔میرے جسم کاسب سے بڑا جزو پانی ہے۔اگر ان اجزائے ترکیبی کو باہم ملانے سے انسان بن سکتا ہے تو شاید میں بہت سستی چیز ہوتا اور غریب سے غریب شخص بھی مجھے خرید سکتا ۔لیکن جب یہ عام سے عناصر میری سانچہ میں ڈھل جاتے ہیں تو ایک ایسا انمول شاہکار و جودمیں آتا ہے جس کی قدرو قیمت محض الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتی ۔میرا جسم ایک ایسی عمارت ہے جو خلیات کی اینٹوں سے تعمیر ہوا ہے ،خلیہ میری ساخت کی اکائی ہے

میرے جسم میں کوئی 2400 کھرب خلیات ہیں ،ہر خلیہ ایک ننھی منی فیکٹری ہے جو خالص قسم کی مصنوعات تیار کرتی ہے،ہر خلیہ خاص قسم کے فرائض سر انجام دیتا ہے،لیکن خلیہ کی مصنوعات تیار کرنے کے لیے سائنس دانوں کو اربوں روپے مالیت کی کئی فیکٹریاں لگانا پڑیں گی اور پھر بھی سارے کے سارے کیمیائی مرکبات مصنوعی طریقے سے بھی تیار نہ کر سکیں گے۔لیکن میری یہ ننھی منی فیکٹری اتنی چھوٹی ہے کہ خورد بین کے بغیر نظر بھی نہیں آسکتی ۔ستر سال تک کوئی ساڑھے پانچ سو من غلہ ہڑپ کر جاتا ہوں ۔ایک سو تیس من سبزیاں اور پھل کھا جاتا ہوں ساٹھ سے اسی من گوشت میری زد میں آتا ہے اور کوئی پندرہ سو گیلن دودھ پی جاتا ہوں ۔اسی عرصہ میں کوئی ہزار گیلن پانی مجھے درکار ہوتا ہے ،ستر برسوں تک چائے کی کوئی ایک لاکھ پیالیاں پی جاتا ہوں۔

اگر اوسط درجہ سگریٹ نوشی کرو ں تو ایک لاکھ اسی ہزار سگریٹ پھونک جاتا ہوں ۔میں غیر محسوس طریقہ سے تھوک نگلتارہتا ہوں ،لیکن یہ کبھی نہیں سوچا کہ ستر برسوں میں کوئی سات ہزار گیلن تھوک جاتا ہوں، اسی دوران میرے معدہ میں دس ہزار گیلن تیزاب تیار ہوتا ہے جو ایک اوسط درجہ کے کیمیائی کارخانہ کی ضرورت پوری کر سکتا ہے، اسی عرصہ میں بارہ ہزار گیلن پانی پیشاپ کی صورت میں خارج کرتا ہوں ،میری سانسیں نمدار ہوتی ہیں اوریہی نمی سردیوں میں منہ سے نکلنے والے دھو ئیں کی صورت میں نظر آتی ہے ۔میں اپنی زندگی میں کوئی چار ہزار گیلن پانی سانسوں کے ذریعہ سے خارج کرتا ہوں اور اسی عرصہ میں مجھے چھ ہزار گیلن پسینہ آتا ہے،ستر برس تک میرا دل تین ارب مرتبہ دھڑکتا ہے اور تین لاکھ من خون صاف کرکے جسم کے مختلف حصوں کو فراہم کرتا ہے،اسی عرصہ میں میرا خون کم و بیش چالیس کروڑ میل کا فاصلہ طے کرتا ہے۔

Breath

Breath

میرے ہم خلا باز جب مریخ پر اتر نے کے بعد واپس آئیں گے تو انہیں بھی لگ بھگ اتنا ہی سفر کرنا پڑے گا ۔میں عمر طبعی ہی میں ترتسٹھ کروڑ سانسیں لیتا ہوں اور میری آخری سانس زندگی کا باب ختم کر دیتی ہے،میری زندگی کا اہم اور دلچسپ حصہ نیند ہے۔میں ہوا کے بغیر تین منٹ ،پانی کے بغیر تین دن اور غذا کے بغیر تین ہفتے زندہ رہ سکتا ہوں ،ستر برس سے بیس میں سوتے گزار دیتا ہوں ۔اپنی زندگی کے چند ابتدائی دن تو میں چوبیس میں سے بائیس گھنٹے سوتا رہتا ہوں ،عمر کے ساتھ نیند کی مقدار بھی کم ہوتی رہتی ہے۔

بچپن میں مجھے آٹھ گھنٹے سونا پڑتا ہے،جبکہ جوانی میں چھ گھنٹے کی نیند کافی ہے، بڑھاپا اور ذہنی پریشانیاں نیند کی مقدار اور بھی کم کر دیتے ہیں ۔جب میں صحت مند اور بے فکر ہوتا ہوں تو صرف پندرہ منٹ میں سوجاتا ہوں ،جب کہ بچپن میں تو بعض اوقات ایک منٹ سے بھی کم عرصہ نیند کی آغوش میں چلا جاتا ہوں ،لیکن بعض اوقات کئی کئی گھنٹوں کی کوشش کے باوجود بھی نیند نہیں سو سکتا۔

سوتے میں میرے جسم کے 327 عضلات کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں ،اسی دوران کوئی پائو بھر پانی اور پسینہ سانس کے ذریعے جسم سے خارج ہوتا ہے، گر میوں کے موسم میں اس کی مقدار بڑھ جاتی ہے، رات بھر کی نیند میں ساڑھے چھ ہزار مرتبہ سانس لیتا ہوں ، بہار اور خزاں کے موسم میں میری نشوونماکی رفتار ذرا تیز ہو جاتی ہے۔ ان دنوں موسم معتدل ہوتا ہے اور میرے جسم کو شدید گرمی یا شدید سردی کے خلاف جنگ نہیں لڑنا پڑتی ۔اس طرح میں پوری توجہ کے ساتھ اپنے جسم کی نشوونما کر سکتا ہوں ، میرے جسم میں ساٹھ فی صد سے زیادہ پانی ہوتا ہے۔

بظاہر تو ٹھوس اور خشک سی چیز ہوں ہڈیاں ٹھوس بلکہ پتھر کی طرح سخت ہیں لیکن ان کا بھی آدھا حصہ پانی پر باقی آدھا چونے اور فاسفورس وغیرہ پر مشتمل ہے۔خون میں 78 فی صد پانی ہوتا ہے اور 24 فی صد ٹھوس اجزائ، دلچسپ بات یہ ہے کہ گوشت میں 75 فی صد سے 80 فی صد اور دماغ میں 85 فی صد پانی ہوتا ہے۔لیکن پھر بھی گوشت اور دماغ ٹھوس ہیں ،جبکہ خون مائع حالت میں ہے، میرے جسم میں اتنی حرارت ہوتی ہے کہ اسے اکٹھا کر کے ایک سیٹ چائے تیار کی جاسکتی ہے اور اتنی سا ری بجلی ہوتی ہے کہ اس سے پچیس واٹ کی قو ت کا ایک بلب چند منٹ تک روشن رکھا جا سکتا ہے۔لیکن میں نے اپنی توانائی چائے بنانے یا بلب جلانے پر صرف نہیں کی بلکہ اس سے کائنات کو مسخر کرنے کی کوشش کی ہے، اسی لیے میں نے اشرف المخلوقات ہونے کا درجہ حاصل کیا ہے۔

Akhtar Sardar Choudary

Akhtar Sardar Choudary

تحریر : اختر سردار چودھری