کراچی (جیوڈیسک) 1948 میں لندن میں پاکستانی ہائی کمشنر کے ائونٹ میں نظام آف حیدر آباد کی طرف سے 10 ہزار پونڈ کی منتقلی کا تنازع اب حل ہونے کے قریب ہے۔ حال ہی میں لندن ہائیکورٹ میں اس رقم کے دعوے داروں کے مقدمے کی سماعت ہوئی۔ دونوں ممالک 65 برس تک سفارتی بات چیت سے اس رقم کے تنازع کو حل کرنے میں ناکام رہے۔ برطانوی بینک نیٹ ویسٹ لندن میں 67 سال سے 10 ہزار پونڈ اب 3 کروڑ 50 لاکھ پونڈ( تین سو پچاس کروڑ روپے) ہو چکے ہیں۔بھارتی اخبار”احمد آباد مرر، پونے مرر“ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان اور بھارت کے درمیان نظام آف حیدر آباد کی رقم کی اس پیچیدہ قانونی جنگ میں 181 سال کی تاریخ رکھنے والا برطانوی بینک بھی شامل ہے۔ یہ تنازع 67 سال قبل اس وقت شروع ہوا جب لندن میں پاکستان کے ہائی کمشنر کے اکائونٹ میں 10 ہزارپونڈ جمع کرائے گئے، اس رقم کو بعد میں واپس لینے کا مطالبہ کردیا گیا۔
اس رقم کے تنازع کو دونوں ممالک پاکستان اور بھارت کی سفارتی بات چیت نے مزید الجھا دیا۔رپورٹ کے مطابق 20 ستمبر 1948 میں نظام آف حید ر آباد کے وزیر خزانہ نواب معین نواز جنگ نے 10 ہزار پونڈ ویسٹ منسٹر بینک لمیٹڈ میں حبیب ابراہیم رحیم تولہ کے اکائونٹ میں منتقل کیے، جو اس وقت لندن میں پاکستانی ہائی کمشنر تھے۔ایک ہفتے کے بعد نظام نے اس رقم کی منتقلی کوواپس کرنے کی درخواست کی کہ یہ رقم ان کی منظوری کے بغیر دی گئی۔جسے بینک نے مسترد کردیا تھا۔
بات چیت میں ڈیڈلاک کے بعد نظام نے 1954میں بینک اور رحیم تولہ کے خلاف برطانیہ میں قانونی کارروائی کا آغاز کیا۔یہ معاملہ ہائوس آف لارڈ ز میں گیا ،تاہم رحیم تولہ کے طرف سے دلائل کو قبول کیا گیا کہ نظام ان کے خلاف قانونی کارروائی نہیں کرسکتا۔ یہ پاکستان کی خودمختار حیثیت کی خلاف ورزی ہوگی۔اس تنازع کا حل صرف سفارتی بات چیت سے ممکن تھا ۔ دونوں ممالک کے کشیدہ تعلقات کی وجہ سے کسی نتیجہ پر نہ پہنچا جا سکا۔اصل رقم پر سود جمع ہوتا رہا۔
بینک کا کہنا تھا کہ اس مسئلے کا حل پاکستان،بھارت اور نظام کے پوتوں شہزادہ مکرم اور مفاکہم کی طرف سے مشترکا ہدایات کی روشنی میں ہوسکتا ہے۔ 2013ءمیں پاکستان کی طرف سے بینک کیخلاف قانونی کارروائی کا آغاز کیا گیا اور رضاکارانہ طور پر اس مقدمے میں استحقاق کو چھوڑا گیا۔جس سے عدالت نے مقدمے کی کارروائی کا آغاز کیا۔ لندن ہائی کورٹ کے جسٹس ہنڈرسن نے 16 جنوری کو اس مقدمے کی سماعت کی۔ اب اس رقم کے تنازع کا فیصلہ ہائیکورٹ کریگی جسے دونوں ممالک 65 سال میں طے نہ کرسکیں اب آئندہ برسوں میں اس کا فیصلہ ہو جائیگا۔