تحریر : ڈاکٹر امتیاز علی نو گو ایریاز تو کراچی میں ہوتے تھے یہ جنوبی پنجاب میں کیسے شفٹ ہو گئے چھوٹو مزاری نے ریاست کے اندر ریاست کیسے قائم کرلی اس کے پاس طیارے گرانے والی مشینیں اور راکٹ لانچرز آخر کہاں سے آن پہنچے ۔تقریباً20کلومیٹر مربع علاقہ پر اس کا راج کیسے قائم ہو گیا یہ سب کچھ مہینوں یا ایک سال میں نہیں ہو گیا۔خدا قہر نازل کرے پاکستان میں رائج مغربی لادینی جمہوریت پر جو تمنداروں ظالم وڈیروں اور سرداروںاور اب چند سالوں سے سود خور صنعتکاروں اور ان کی اولادوں کو ہی منتخب کرتی ہے۔اس کی بات پھر کسی وقت کریں گے مگر اس وقت تک تو چھوٹو گینگ نے بیس سے زیادہ پولیس ملازمین اپنی حراست میں لے رکھے ہیں اور ہماری رینجر ز اور پولیس نے چاروں طرف گھیرا تنگ کر رکھا ہے۔
گن شپ ہیلی کاپٹرز آخر فائر کریں تو کیسے کہ ہمارے 20سے زائدپولیس والوں کو وہ یرغمالی بنائے بیٹھا ہے یعنی بندوق نہیں چلتی بلکہ اس کے پیچھے جو ہو اس کی ویلیو ہے ریگستان میں بنکرز کس نے بنوائے ۔چھوٹ مزاری کو کس نے اس کام میں اتارا وہ کیسے دہشت گرد بنا ۔اب بھی پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپکیر فون پر اس سے بات چیت کرتے اور رابطے میں ہیں ۔آئی جی پولیس پنجاب کی پر یس کانفرس صرف کھسیانی بلی کھمبا نو چے اور گونگلوئوں سے مٹی جھاڑنے کے مترادف تھی کہ ہم نے 100سہولت کار پکڑ لیے ہیں۔سکھیرا صاحب مان لیا کہ چھوٹے موٹے ٹٹ پو نجیے،جس میں زیادہ پولیس ٹائوٹ ہی ہوں گے آپ نے پکڑ لیے۔مگر کیا کسی بڑی مچھلی یا مگر مچھ کو بھی پکڑا ہے۔ اور جو چھوٹو کی ہر واردات میںسے حصہ بقدر جسہ وصول پاتے تھے۔
ان کے بارے میں بھی معلومات حاصل کر لی ہیں۔چاہیے تو یہ کہ تقریباً 15سال سے اس علاقہ میں تعینات تھانیداروں سے تحقیقا ت کی جائیں کہ کون کون اس کے ڈیرے کی سر دائی پیتا رہا اور ہمہ قسم لوازمات کی وصولی بھی اورجو انتظامی اہلکار سرکاری ملازمین کو بھتہ دے کر چھڑاتے رہے ہیں۔ایسے افراد تو کہیں گم نہیں ہو گئے یہ ہو سکتا ہے کہ وہ بڑے افسر بن چکے ہوں۔ پوری قوم خدائے لم یزل کے آگے سر بسجود ہے جہاں شہید پولیس ملازمین کی مغفرت کے لیے دعا گو ہے وہیں یہ بھی چاہتی ہے کہ پولیس خود مجرموں سے بھتہ لینا بند کرے جہاں جہاں نشہ آور ادویات ،جوا،ڈکیتی کے وارداتی غنڈے مو جود ہیں۔ان کا مکمل بائیکاٹ کرکے ان کا تھانوں میں داخلہ بندکرے۔اور ان سے مال متال تو لیناگناہ سمجھے تو تبھی جرائم کا خاتمہ ممکن ہو گا۔وگرنہ جو چاہے کر لیویں چھوٹو گینگ نہیں تو کوئی موٹو ،نوٹو گینگ جنم لیتا رہے گا۔
Choto Gang
اس مخصوص علاقہ میںلغاریوں ،مزاریوں ،کھوسوں کی آپس کی لڑائیوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ تمام جاگیردار وڈیروں نے اپنے اپنے مسلح گینگ پال رکھے ہیں وہی ان کی الیکشن میں کامیابیوں کا راز ہیں ۔کہ لوگ دلی محبت سے نہیں بلکہ جبر وخوف کی علامت سمجھتے ہوئے ووٹ دینے پرمجبور ہوتے ہیں۔وہ جس پولنگ اسٹیشن پر ہار گئے ان چکوک کے غریب عوام کی شامت آن پڑے گی۔ان کی خواتین اور بچے اغوا کر لیے جائیں گے۔ اور چھوٹو گینگ ٹائپ لو گ ہی ان کے کام آتے ہیں۔غریب کی جان خلاصی ساری جائداد بیچ کر تاوان ادا کرنے کی صورت میں ہی ہو گی۔الیکشن کمیشن پانچ ایکڑ سے زائد زمین رکھنے والوں کے انتخابات میں حصہ لینے والوں پر پابندی عائد کردے۔سارا الیکشنی خرچہ حکومت خود کرے تو حیران کن اصل نتائج سامنے آئیں گے۔لوگ اللہ اکبر اللہ اکبر کے نعرے لگاتے ہوئے تحریک کی صورت میں نکلیں گے اور کر پٹ گھسے پٹے اقتداری طوطے اور جعلی شیر اپنے ہی علاقوں میں سیاسی طور پر مدفون ہو جائیں گے۔ اور قابل ایماندار اور محنتی افراد ہی منتخب ہو ں گے۔
وڈیروں اور جاگیرداروں کا انتخاب کرکے ہمیں کوئی فائدہ بھی نہ ہے ایسے 80فیصد ممبران اسمبلی پورے سیشن میں گونگے بنے بیٹھے رہتے ہیں انھیں اوران کی اولادوں کو فرصت کے لمحات گزارنے کے لیے کوئی شغل نہیں ملتا تو وہ ممبر اسمبلی کی کلغی لگانا بہتر سمجھتے اور اسطرح علاقہ کے چھوٹو گینگوں کی سرپرستی آسانی سے کرسکتے ہیں۔چھوٹو گینگ تو ختم ہو کر رہیں گے مگر خلق خدا لاکھ چیخ و پکار کرتی رہے ان کا کوئی پرسان حال نہ ہے اور نہ رہے گا۔جب تک کرپٹ مافیا کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جاتا بندوقیں چلتی رہیں گی غریب ملازم اور عوام مرتے رہیں گے۔
آج بھی اگرپانامہ لیکس کے اعلان کردہ رحمان ملک ،سیف اللہ خاندان ،چوہدری صاحبان ،شریفوں کے بچگان وغیرہ کی منقولہ و غیر منقولہ جائدادیں قرق کرلی جائیںاور دو سو ارب ڈالر بیرون ممالک کے بنکوں میں جن افراد نے جمع کر رکھے ہیں ان کو بھی چوکوں میں نشان عبرت بناڈالا جائے تو تمام غیر ملکی قرضے بھی اتارے جاسکتے ہیں۔اور ملک ترقی پذیری کے مراحل طے کرتا نظر آئے گا اور خوشحال ہو گا۔بہر حال احتسابی شکنجہ بڑے بڑے لٹیرے مگر مچھ نما افراد کے گلے میں نہیں ڈالو گے تو بابا پھر یہ سب کہانیاں ہیں۔نتیجہ صفر بٹا صفرہی رہے گا۔