تحریر : شاہد شکیل اب کیا کریں زندگی تو گزارنی ہے،لوگ بھی بہت تنگ کرتے ہیں ،ہمارے مسائل ہی ختم نہیں ہوتے ،لوگ کیا کہیں گے،آخر کب تک ایسے جئیں گے ،ہمارا تو وقت ہی خراب ہے ،دنیا بھی ظالم ہو گئی ہے جیسے الفاظ دنیا کی ہر زبان میں اپنے رہن سہن ،ماحول اور زندگی میں ہر روز پیش آنے والے معاملات کے پیش نظر ہر انسان دن میں کئی بار ادا کرتا ہے،غربت کی چکی میں پسنے والے افراد روزی روٹی کے چکر میں پھنس کر دنیا کی ایسی کی تیسی کرتے ہیں اور امیر لوگوں کو یہ سوچ سوچ کر نیند نہیں آتی کہ کون سا ایسا حربہ یا چال چلی جائے کہ دن دگنا اور رات چگنا مال سمیٹ سکیں ،یعنی کبھی کبھی مسئلہ کسی امیر یا غریب کو وراثت میں نہیں ملتا بلکہ روز مرہ زندگی میں رونما ہونے والے حالات اور معاملات میں ہر انسان گھرا ہوا ہے اور غلطی اس وقت کرتا ہے جب جان چھڑانے کی کوشش کرتا ہے حالانکہ سب جانتے ہیں مسائل آجانے کی صورت میں جان چھڑانے یا ٹالنے کی بجائے ان کا حل نکالنا اہم ہوتا ہے لیکن زیادہ تر غلطی کی جاتی ہے کہ فرار کی راہیں تلاش کی جاتی ہیں ،سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں کیا جاتا ہے کیا ہمارے پاس مسائل حل کرنے کا کوئی طریقہ یا کلیو موجود نہیں یا ہم معاملات کو ایک کھیل سمجھ کر در گزر کرتے ہیں۔
مسائل ہر انسان کو کہیں بھی پیش آ سکتے ہیں مثلاً سکول کالج ، جاب ، کاروبار،صحت اور خاص طور پر نجی زندگی میں اکثر کچھ زیادہ ہی پرابلمز آتی ہیں ،مثلاً اگر کوئی پرانی کار والا کسی برینڈ نیو کار کو اوور ٹیک کرنے کی کوشش کرے گا،دانت کے معمولی درد کو نظر انداز کرنے کی صورت میں کئی دانتوں کی قربانی دینی پڑتی ہے ،دس قدم پر واقع سبزی فروش سے ایک کلو ٹماٹر خریدنے کیلئے پیدل چلنے کی بجائے کار استعمال کی جائے ،سپورٹس نہ کرنے کی صورت میں چالیس برس کی عمر میں ہی کمر ٹیٹرھی ہوجائے گی تو ستر برس میں انسان سیدھا کیسے کھڑا ہو سکے گا، بچے امتحان میں اسلئے فیل ہوئے کیونکہ تمام دن ٹی وی اور گیمز کھیلتے رہے، شادی بیاہ کی کئی فضول رسومات ادا کرنے پر محض دکھاوے کیلئے قرضہ لیا اور چکانے کی باری آئی تو دنیا ظالم لگتی ہے ،بجلی کا بل ایک ہفتے سے ادا نہیں کیا اور کاٹ دی گئی تو واپڈا والوں کی ماں بہن ایک کر دی گئی۔جیسا سوال تھا جواب بھی ویسا ہی ہونا چاہئے کہ دنیا کے کسی بھی فرد کو مسائل خود آ کر نہیں چپکتے کوئی کسی کیلئے پرابلمز پیدا نہیں کرتا انسان خود اپنے دماغ اور شعور کی کمی کے باعث خود اپنے پیروں پر کلہاڑی مارتا ہے۔تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسانی زندگی ایک شیطانی چکر ہے جس میں ہر لمحے انسان ہچکولے ہی کھاتا رہتا ہے یا جب تک زندہ رہتا ہے اَن لمیٹڈ پرابلمز اسکے گلے پڑی رہتی ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے انسانی زندگی بہت سادہ ہے لیکن زندگی میں تبدیلیاں رونما ہونے سے مسائل پیدا ہوتے ہیں ،مسائل گھمبیر اس وقت ہو جاتے ہیں جب انسان معاملے کی تہہ یا جڑ تک نہیں پہنچ پاتا اور اگر پہنچ جائے تو انہیں ختم کرنے کی بجائے وقتی طور پر جان چھڑاتے ہوئے آنے والے کل پر چھوڑ دیتا ہے اس انسانی سوچ یا منطق سے کبھی مسائل حل نہیں ہوتے اور نہ کوئی روک سکتا ہے اپنی غلطیوں کی جنگ اپنے ساتھ لڑتا ہے اور لعن طعن دنیا کے ساتھ ہوتی ہے ،سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ جب کار پرانی ہے تو ریس لگانے کا آئیڈیا کس نے دیا،ایک دانت کی قربانی دینا زیادہ بہتر ہے نہ کہ بتیسی کو کیڑوں کی آماجگاہ بنانا،پیدل چل کر سبزی خریدنے کا دوسرا نام سپورٹس ہے،ٹی وی اور گیمز کھیلنے کا وقت مقرر کیا جائے گا تو کوئی بچہ امتحان میں فیل نہیں ہوگا ،دکھاوے اور نمائش کی بجائے سادگی اپنائی جائے تو عزت میں کمی نہیں آئے گی نہ کہ قرضوں کی قبر میں دفن ہوا جائے،یعنی ہر عمل کا رد عمل ہوتا ہے اس لئے ہر کام کے آغاز سے قبل حکمت عملی اختیار کرنے سے کبھی مسائل پیدا نہیں ہوتے۔
Issues
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اکثر تین باتوں سے مسائل کی ابتدا ء ہوتی ہے مثلاً اگر کوئی یہ کہے کہ آج نہیں کل ،بہانے تراشے یا اصل بات کا رخ تبدیل کیا جائے ،ایک گروپ مسائل دیکھ کر رفو چکر ہوتا ہے تو دوسرا مسائل کو حل کرنے کی تراکیب کی کھوج میں رہتا ہے تاکہ جلد از جلد کامیابی حاصل ہو،عام طور پر مسائل کے حل کیلئے محض اندازے لگائے جاتے ہیں یا اپنے خیالات کو سوچے سمجھے بغیر دوسروں پر مسلط کیا جاتا ہے جو حل نہیں بلکہ درد سر بھی بن جاتے ہیں اور کئی افراد کشمکش میں مبتلا ہونے کے سبب موثر فیصلہ نہیں کر پاتے۔ ماہرین نے چند عملی تجاویز پیش کی ہیں جن سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔وضاحت۔اصل مسئلہ کیا ہے اس کا پتہ لگا نا اہم ہوتا ہے مسئلہ چھوٹا ہو یا بڑا کھینچا تانی سے گریز کیا جائے کیونکہ ضرورت سے زیادہ گفت و شنید ہر انسان کو تشویش میں مبتلا کر سکتی ہے کسی بھی مسئلے کو معمولی نہ سمجھا جائے۔ اسباب بمقابلہ علامات۔آپ کیا حل کرنا چاہتے ہیں کیونکہ جب تک اسباب یا علامات ظاہر نہیں ہو نگی آپ تجزیہ نہیں کر سکیں گے اور حل کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اس لئے تجزیہ کرنے کے بعد ہی ممکنہ طور پر حل نکل سکتے ہیں لیکن صورت حال پر منحصر ہے یا معاملے کی گھمبیرتا پر انحصار کرتا ہے مثلاً چھت سے پانی ٹپک رہا ہے تو اس کا فوری حل یہ ہے کہ خالی بالٹی رکھیں اور ہر دو گھنٹے بعد تبدیل کریں۔
دوسرا حل چھت کا سوراخ تلاش کریں اور بند کرنے کی کوشش کی جائے ،تیسری تجویز ماہر کو بلایا جائے جو خاصی رقم کا مطالبہ کرے گا۔متبادل طریقے۔گہرائی سے سوچنے کے ہمیشہ مثبت نتائج ظاہر ہوتے ہیں لیکن سوچ تخلیقی ہونی چاہئے کیونکہ ہر مسئلے کا کوئی نہ کوئی شارٹ کٹ ہوتا ہے جو واضح ہونے کے ساتھ بہترین حل ہوتا ہے اِ ن پُٹ وائرس میں گھرنے سے بہتر ہے متبادل طریقے استعمال کئے جائیں لیکن ہر پہلو پر گہرائی سے سوچا جائے۔فیصلہ اور عمل درآمد۔جمع شدہ متبادل سوچوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کا کون سا اقدام تیز ،سستا،آسان ترین اور سب سے پائیدار ہے۔
تھیوری پر وقت ضائع کرنے کی بجائے پریکٹیکل کریں تاکہ کوشش کرتے ہوئے ایکٹو رہیں اور ان عوامل سے بہت جلد محسوس کریں گے کہ نتائج مثبت آرہے ہیں۔ جائزہ لیں اور ہر مسئلے کو اسی کے خانے میں ایڈجسٹ کریں نہ کہ بات چائے کی ہو رہی ہو تو بحث مباحثہ کافی کے نقصانات پر جاری ہو، یعنی ٹو دی پوائنٹ بات کی جائے،آپ کے اقدامات کا سپیڈ و میٹر آپ کو درست سمت لے جائے گا۔ جرمن کہاوت ہے کمزور گھوڑے پر یہ سوچ کر سواری نہ کی جائے کہ ریس کے میدان میں حصہ لے گا اور جیت جائے گا۔مسائل کے حل کیلئے منفی خیالات سے گریز کیا جائے نتائج جلد اور مثبت آئیں گے۔