تحریر: شاہ فیصل نعیم ماہِ صیام تمام طرح کی فیوض و برکات کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے پورے عالمِ اسلام پر جلوہ گر ہے۔ چارسو عالم میں انوار و تجلیات کی برکھا برس رہی ہے مگر شومئی قسمت کہ میں نا سازیِ طبع کے باعث ہسپتال میں ہوں ایسے میں رشتے داراور دوست و احباب کا تانتا بندھا رہا مگر میرا سب سے چھوٹا بھائی عیاد ت کے لیے نا آسکامیں گھر آیا تو پوچھا:”چھوٹے میاں! آپ نے گھر میں اکیلے کیاکرنا تھا
آپ بھی آجا تے ہسپتال”؟تو وہ کہنے لگا:”بھائی گھر میں کوئی نہیں تھا اور پھر جانوروں کا خیال بھی رکھنا تھا اس لیے نہیں آسکا”۔ مجھے اُس کی بات اچھی بھی لگی اور ہنسی بھی آئی کہ :”یار تم اتنے چھوٹے ہو اگر کوئی چور گھر میں گھس بھی آتا تو تم کیا کر سکتے تھے”؟شیخ سعدی کے قول کے مصداق بزرگی عقل سے ہوتی ہے سالوں سے نہیں۔ تھا تو مجھ سے چھوٹا مگر اس کے جواب نے مجھے چونکا دیاجو الفاظ میں مختصر مگر معانی کی دنیا میں دریا کو کوزے میں بند کیے ہوئے تھا کہنے لگا: “بھائی! شور تو مچا سکتاہوں نا…”؟
Islam World
کہنے کو یہ چند الفاظ ہیں مگر ان میں ایک جہاں آباد ہے۔ آج عالمِ اسلام جس گھمبیر صورتِ حال سے گزر رہا ہے ان حالات میںہر سوزِ جنوں رکھنے والے مسلمان کا دل اشکبار ہے۔ میں جس کسی سے بھی بات کرتا ہوںان میںسے اکثر لوگ کہتے ہیں شاہ صاحب آپ اکیلے اس نظام کو بدل نہیں سکتے۔ لوگ جو کہتے ہیں اس کو میں بھی جانتا ہوں اور اس میں کتنا سچائی کا پہلو ہے اُسے بھی۔
شاید میںاس نظام کو نا بدل سکوں مگر بدلنے کی کوشش تو کر سکتا ہوں وہ شمع تو بن سکتا ہوں جو اکیلی کائنات کی تاریکی کو ختم تو نہیں کر سکتی مگر اپنے ہونے کا احساس تو دِلا سکتی ہے۔ اس شمع کی مو جودگی اس تاریک رات میں نویدِ صبح ِنو ہے۔ ساتھیو! دیکھو اگر میں کچھ نہیں کرسکتا تو لٹیروں کی لوٹ مار پر کم از کم شور تو مچا سکتا ہوں…! دنیا میں قتیل اس سا منافق نہیں کوئی جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا