تحریر : شاز ملک ازل سے انسان کے دل میں احساسات کا اک موجزن سمندر رکھا گیا ہے شر اور خیر کے دو سمندر جو ساتھ ساتھ بہتے ہیں مگر باہم مل نہی پاتے بلکل ایسے جیسے اندھیرا اور روشنی کا باہم تعلق ہوتا ہے مگر دونوں ایک جا نہیں رہ سکتے اسے ہی آواز اور چپ کا باہم تعلق ہے رب تعالیٰ نے ہر شے میں ایک ردھم ایک آہنگ رکھا ہے وقت کے ساز کی لے پر زندگی کا راز رکھا ہے۔
اور پھر اس آہنگ کی لے کو دلوں میں بانٹ دیا کسی کے حصے خیر تو کسی کے شر کوئی روشنی میں تو کوئی اندھیروں کی زد میں آ گیا کوئی بولوں کا رسیا تو کوئی چپ میں گم ہو گیا
یہ سب رب تعالیٰ کی دین ہے وہ جسے چاہے جو عطا کر دے اور جب چاہے دے کر لے لے چاہے تو لفظ عطا کر دے اور چاہے تو پل میں بے لفظ کر دے ،… عالی مرتبت کو بے مرتبت کر دے …. کیا رمز ہے کیا بھید ہے یہ بس ووہی جانے انسان جب تک بولتا رہتا ہے شور کا شر اسکے اندر اترتا رہتا ہے جب خاموش ہو کر چپ کے سمندر میں اترتا ہے تو گیان دھیان کی لہروں کو محسوس کرنا شروع کرتا ہے تو چپ کی تہ میں غوطہ زن ہو جاتا ہے گم ہو جاتا ہے۔
شور کے شر میں مدتوں خود کو کھو کر پھر چپ کی خیر سے خود کو پا لیتا ہے تو خود آشنا ہو جاتا ہے خاموشی رازوں کی امین ہوتی ہے اسی لئے خاموشی آواز کی مرشد ہے .. خاموشی بھید کو کھولتی ہے جب یہ بولتی ہے تو پھر شور پر غالب آ جاتی ہے۔
دل کو چپ کے ترازو میں تولنا پڑتا ہے خاموشی کے صحرا میں ضبط کو رولنا پڑتا ہے دور کہیں جسم و جان کے اندر ذات سے الجھی ہوئی گرہوں کو حوصلے کے ہاتھوں سے کھولنا پڑتا ہے تب کہیں جا کر روح کے بند روزن کھلتے ہیں وو روزن جن سے ہر کسی کو آشنائی ہے نہ آگاہی ……. احساسات کی آنکھیں چندھیا جاتی ہیں اس روشنی کے سامنے جب چپ کے ہاتھ روح کے بند کواڑ کھولتے ہیں۔
تو شور کی طنابیں کھنچ لی جاتی ہیں اندر باہر چپ کا ڈیرا بسیرا ھو جاتا ہے روشنی سے نور تک کی رسایی کا سفر انت سے بے انت تک کے سفر کا آغاز ……