پاک فضائیہ کے جیٹ طیاروںنے کامیاب کاروائی کرتے ہوئے شمالی وزیرستان کے علاقے دیگان میں ازبک دہشتگردوں کے8ٹھکانوں کو بمباری کا نشانہ بنایا جس سے کراچی ائرپورٹ حملے کے ماسٹر مائنڈ سمیت100دہشتگردوں کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں جبکہ راولپنڈی کے علاقے ویسٹرج میں حساس ادارے کی عمارت کو بم سے اڑانے کی سازش ناکام بنادی گئی البتہ مانسہرہ میں دہشتگرد سیکورٹی فورسز کی گاڑی کو ریموٹ کنٹرول بم سے اڑانے میں کامیاب رہے جس سے ایک شخص جاں بحق اور تین زخمی ہوگئے۔
دوسری جانب مولوی فضل اللہ کی سربراہی میں طالبان کمانڈروں کے اجلاس میں دہشتگردی کا نیٹ ورک وسیع کرنے اور اہم سرکاری عمارات و حساس اداروں کے دفاتر کے ساتھ بس اڈوں’ ریلوے اسٹیشنوں ‘ اسکولز ‘ شاپنہ سینٹرز اور عبادتگاہوں کو نشانہ بنائے جانے کی حساس اداروں کی اطلاعات کے بعد نہ صرف ملک بھر میں سیکورٹی ہائی الرٹ کردی گئی ہے بلکہ شمالی وزیرستان میں فضائی حملوں کے ردعمل کے طور پر ممکنہ دہشتگردی سے بچنے کیلئے وفاقی دارالحکومت کی سیکورٹی فوج کے حوالے کردی گئی ہے۔
جبکہ اس سے قبل اسپیکر قومی اسمبلی ‘ پارلیمنٹ پر دہشتگردانہ حملے کے خدشات اور پارلیمنٹ پر حملے کی صورت سیکورٹی انتظامات کے حوالے سے عدم اطمینان کا اظہار کرچکے ہیں اس پیرائے میں اسلام آباد کی سیکورٹی فوج کے حوالے کرنے کا حکومتی اقدام احسن ہی نہیں بلکہ فوج کی صلاحیتوں و کارکردگی پر اطمینان اور فوج ہی کو ملک و قوم کے تحفظ کا ضامن ادارہ ماننے کے رجحان کی علامت ہے جس سے فوج کیخلاف حکومتی سازشوں کا تاثر عام کرنے والوں کی کوششوں کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔
Terrorism
مگر اس کے باجود ملک میں بدترین دہشتگردی اور دہشتگردانہ حملوں کے ذمہ داران کی جانب سے حملوں کی ذمہ داری قبول کئے جانے اور ڈی جی رینجرز کی جانب سے دہشتگردوں کے پاس سے بھارتی اسلحہ و دیگر اشیاء کی برآمدگی سے پاکستان میں دہشتگردی میں بھارتی ہاتھ کے ملوث ہونے کے انکشاف کے باجود حکومت کی جانب سے فوج کی خواہش کے مطابق پاکستانی زمین کو دہشتگردوںسے پاک و آزاد کرانے کیلئے بے رحم آپریشن سے اجتناب اور سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے ای سی ایل سے مشرف کا نام نکالنے کے حکم پر مشرف کو باہر جانے کا موقع دیکر اس بیکار باب کو ہمیشہ کیلئے بند کرکے قومی و عوامی مسائل پر مکمل توجہ مرکوز کرنے کی بجائے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ میں حکومتی درخواست یقینا ابھی مشرف کے معاملے کو مزید کچھ عرصہ اور زندہ رکھنے اور افواج و سول قیادت میں کے تعلقات میں کشیدگی و جمہوریت کیلئے خطرات کی فضا ء کو برقرار رکھنے اور افواہ ساز فیکٹری کے ذریعے ملکی معیشت پر اثر انداز ہوکر ذاتی مفادات پورے کرنے والوں کی کامیابی کا ثبوت ہے۔
جس سے ملک کا امن و امان ہی نہیں بلکہ عوام کا جان و مال ‘ تجارتی و صنعتی سرگرمیاں ‘ معاشی ‘ تعلیمی ‘ ترقیاتی سرگرمیاں ‘ حکومتی کارکردگی اور اس پر عوام کا طمینان جبکہ جمہوریت کا مستقبل اور پاکستان کی بقاء بھی داؤ پر لگی ہوئی ہے اسلئے حکمرانوں کو جلد سے جلد فوج و سول قیادت میں کشیدگی یا عدم اتفاق کے تاثر کو ختم کرنے کیلئے ایسے صلاح کاروں سے نجات حاصل کرنی ہوگی جن کے مشوروں سے حکومت نان ایشوز میں الجھ کر عوامی مقبولیت و حمایت سے بھی محروم ہورہی ہے اور فوج کے ساتھ اختلافات کے باعث دہشتگردی کا قلع قمع کرنے میں بھی ناکام ثابت ہورہی ہے۔