تحریر : وقار احمد اعوان یہ باتیں اذکار رفتہ ہوچکی کہ آج کی عورت کی آواز کو دبا دیاجائے اوروہ اپنے حقوق کے لئے اٹھ کھڑی نہ ہوں،کیونکہ آج کی عورت باشعور اور سمجھ دار ہے،جسے اپنے حقوق کی جنگ لڑنا اچھے سے آتا ہے۔آج کی عورت پڑھی لکھی ہونے کے ساتھ ساتھ باصلاحیت بھی ہے۔جسے زندگی کے ہرمیدان میں آزمایا جاسکتاہے۔تاہم بعض ان میںسے اب بھی ہچکچاہٹ کا شکارنظرآتی ہیںاور شاید یہی کچھ وجہ ہو کہ ایسی خواتین زندگی کے ہرمیدان میںکامیاب نہیں ہوپاتی۔یہی خواتین ملک خداداد کی اکثریت ہونے کے باوجود بھی نہ ہونے کے برابر ہیں،اور جن کی وجہ سے دیگر خواتین کی آواز بھی دب کررہ جاتی ہے۔انہی خواتین میں ایک طبقہ غیر مسلم پاکستانی خواتین کا بھی ہے جو پڑھی لکھی،باشعور،سمجھ داراور باصلاحیت ہونے کے باوجود بھی اپنے جائز حقوق سے یکسر محروم ہیں۔
اس حوالے گزشتہ روز پیڈفائونڈیشن نے صوبائی اسمبلی میں قومی وطن پارٹی کی خاتون ایم پی اے معراج ہمایون کے ساتھ ایک میڈیا فورم کا اہتمام کیا۔فورم کا مقصد ایک طرف خیبرپختونخوا میں بسنے والی عورت کے مسائل پر روشنی ڈالنا تھا تو دوسری جانب اسی خطہ میںجنم لینے والی غیر مسلم پاکستانی خواتین کا معاشرہ میںکردار اور ان کے لئے اب تک کے کئے گئے اقدامات زیر بحث لاناتھے۔یادرہے کہ خیبرپختونخوا اسمبلی میں خواتین ایم پی ایز جوکہ22کی تعداد میں ایوان میں موجود ہیں،نے( ڈبلیو ۔پی۔ سی) یعنی ”ویمن پارلیمنٹرینرکاکس”کی شکل اختیار کرلی ہے۔اس سے قبل خواتین ممبران اسمبلی مرد ممبران اسمبلی کی طرف سے پیش کئے گئے قوانین یا بل میں شامل ہوتی رہی تاہم اب مذکورہ فورم کے ذریعے خواتین بارے قانون سازی کی جارہی ہے۔جس میںگھریلو تشدد جیسے قوانین قابل ذکر ہیں۔حالانکہ ان 22خواتین ممبران اسمبلی کا تعلق صوبہ کی مختلف سیاسی جماعتوں سے ہے تاہم خواتین بارے قوانین میںان کا کرداراور رائے ایک ہی ہوتی ہے۔
میڈیا فورم سے بات کرتے ہوئے قومی وطن پارٹی کی ایم پی اے معراج ہمایون کاکہنا تھاکہ ”کاکس”کے قیام کامقصد خواتین کا گٹھ جوڑ تھاکیونکہ جب تک اسمبلی میںموجود خواتین ایک آواز نہیں بن جاتی تب تک ہم اپنے یعنی خواتین کے مسائل حل نہیں کرسکتی۔کاکس کی ایگزیکٹیو کمیٹی کے ممبران کی تعداد اول 6تھی،جسے بعدازاں 2016میں الیکشن کے ذریعے بڑھا کر 7کی تعداد تک پہنچا دیا گیا۔ہمارے باقاعدہ جوائنٹ سیشن ہوتے ہیں ،جن میںخواتین بارے مسائل زیر بحث لائے جاتے ہیں۔اس سے قبل ہم گلیوں،نالیوں اورسڑکوں جیسے قوانین میںحصہ لیتی رہیں تاہم اب ہم عورتوں کے بہتر اور موثر قانون سازی کررہی ہیں۔انہوںنے کہاکہ کاکس کے وجود میںآنے سے قبل اسمبلی میں خواتین ممبران اسمبلی کے لئے سہولیات کا فقدان تھا،جیسے ہمارے لئے مناسب بیٹھنے کی جگہ موجود نہ تھی،جس کی وجہ سے ہمیں اپنے امور کی انجام دہی میں شدید مشکلات کا سامنا رہتا تھا،اب آ پ کے سامنے یہ کمرہ ہے جہاں مختلف سیشنز کے ذریعے خواتین کے مسائل زیر بحث لائے جاتے ہیں۔اسی طرح خواتین ممبران اسمبلی کے لئے سپورٹنگ سٹاف کی بھی کمی تھی جسے بعدازاں کاکس نے پوراکرلیا۔خواتین ممبران اسمبلی کے لئے ریسرچ اسسٹنٹ کی آسامیاں پرکی گئیں۔اب باقاعدہ اسمبلی ویب سائٹ پر ہمیں جگہ مل چکی ہے۔جس کے ذریعے سے خواتین اپنے مسائل اور اپنی رائے سے ہمیں آگاہ کرسکتی ہیں۔اسی طرح وقتاً فوقتاً ہونے والی قانو ن سازی بارے آگاہی اورمعلومات بھی حاصل کرسکتی ہیں۔
Media Forum
کاکس کے کرداربارے ایم پی اے معراج ہمایون کاکہناتھاکہ کاکس ریسرچ بیسڈ قانون سازی کرتی ہے۔جیسے ہم خواتین کے اداروں میں خاتون سربراہ کی تعیناتی چاہتی ہیں،اسی طرح وفاقی بشمول صوبائی اسمبلیوں میںخواتین کے لئے مختص نشستوں میںاضافہ تاکہ باصلاحیت خواتین آگے آکر مردوں کے شانہ بشانہ بہتر اور موثرقانون سازی میںحصہ لے سکیں۔اب تک کی قانون سازی بارے سوال کے جواب میں فورم میںشریک اور کاکس کی ممبر ایم پی اے عظمی خان کاکہنا تھاکہ جیساکہ معراج ہمایون پہلے ذکر کرچکی کہ کاکس خواتین کے حقوق کی جنگ لڑرہی ہے۔ہماری کوشش ہے کہ ہم کاکس کے پلیٹ فارم کے ذریعے خواتین کومعاشرہ میں ان کے جائز حقوق دلوائیں جس میںہم 80فیصد کامیابی حاصل کرچکے ہیں۔ہمارے ہاں معاشرتی برائیوں میںخواتین کاغیرت کے نام پرقتل عام ہے۔جسے بغیر کسی وجہ اور ثبوت کے موت کے بھینٹ چڑھادیاجاتاہے۔کاکس اس بارے موثر قانون سازی کر چکی ہے،جسے جلد ہی عملی شکل دی جائے گی۔اسی طرح صوبہ بھر میںخواتین کے لئے الگ سے قیدخانوں کی تعمیربھی کاکس کے مقاصد میںشامل ہے۔انہوںنے مزیدکہاکہ حال یہ ہے پورے صوبہ میں خواتین کے لئے دارالامان کی تعداد صرف تین ہے،جن میںبنیادی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ہماری کوشش ہے کہ مذکورہ کی تعداد بڑھانے کے ساتھ ساتھ بنیادی سہولیات کی فراہمی بھی ممکن بنائی جائے۔کاکس چونکہ تین محکموں پرکام کررہاہے جن میںہوم ،سوشل اور محکمہ صحت شامل ہیں۔
اسی طرح صوبہ بھر میںخواتین پیرامیڈیکس سٹاف کے مسائل کو بہترین انداز سے حل کیا جارہاہے۔ہمارے صوبہ میںچونکہ تین بڑے تدریسی ہسپتال ہیں جن میں ہزاروں کی تعدادمیں نرسز اپنے فرائض منصبی سرانجام دے رہی ہیں۔تاہم انہیںبھی کئی طرح کے مسائل کا سامنا رہتاہے۔ان کے علاوہ ایل ایچ ویز اوردیگر سٹاف کو بھی ریلیف دینے کی غرض سے کاکس موثر قانون سازی اور عملی کردارکا بھرپور ارادہ رکھتی ہے۔غیر مسلم پاکستانی خواتین کی سیاست میں عدم دلچسپی کے سوال پر ایم پی اے معراج ہمایون کاکہنا تھاکہ سیاست دوطرفہ راستہ ہے۔اس لئے یہ کہنا غلط ہوگا کہ ملک خداداد میںکام کرنے والی سیاسی جماعتیں اقلیتوں کے جائز حقوق کے لئے آواز نہیں اٹھاتی،ہماری تو شروع دن سے یہی کوشش رہی ہے کہ غیر مسلم پاکستانی مردوں کے ساتھ غیر مسلم خواتین بھی سیاست کا حصہ بن کر بلعموم مسلمانوں اور بلخصوص اپنی کمیونٹی کے لئے آواز اٹھائیں۔مگر ایسا آٹے میںنمک برابرہی دیکھنے کوملتاہے۔اس مقصد کے لئے ہم نے باقاعدہ ویب سائٹ بھی لانچ کی ہے تاکہ اگر کوئی غیر مسلم پاکستانی خاتون سیاست کے ذریعے ملک وقوم کی خدمت کرنے کاملی جذبہ رکھتی ہے تو اسے بھرپور موقع فراہم کیا جائے۔یقینا مذکورہ کاوش اگر تو ہوجاتی ہے تو کوئی شک باقی نہیں رہ جائے گاکہ غیر مسلم پاکستانی خواتین عرصہ دراز سے محرومیوںکی شکار دیگر غیرمسلم پاکستانی خواتین کی آواز نہ بن جائیں۔انہوںنے مزیدکہاکہ یہ لازم نہیں کہ اقلیتوں کی نشستوں پر ہر بارمرد حضرات ہی ایوانوںتک پہنچیں ۔ان کی جگہ کوئی غیر مسلم پاکستانی خاتون بھی ہوسکتی ہے۔تاہم غیر مسلم پاکستانی خواتین کی جانب سے سیاست میںعدم دلچسپی مردحضرات کو آگے آنے پر مجبور کردیتی ہے۔حالانکہ مردوں میںبھی اکثر یہ دیکھا گیاہے۔کہ جنہیںایک بار ٹکٹ نہیں دیا جاتا تو اگلی مرتبہ وہ کسی دوسری سیاسی جماعت کاحصہ بن جاتاہے۔جس کا براہ راست نقصان اسے اپنی سیاسی ساکھ کھوکر اٹھانا پڑتاہے۔بہرحال موجودہ دورمیں جہاں زندگی کے دیگر شعبوںمیںتبدیلی لازم ہوچکی ہے وہاںغیر مسلم مرد پاکستانیوں کی جگہ غیر مسلم پاکستانی خواتین کو اقلیتوں کے لئے مخصوص نشستوں پرلایاجائے۔جہاں اتنے سال مردوںکو آزمایا گیا وہاں غیرمسلم پاکستانی خواتین کو بھی آزما لیا جائے ہوسکتاہے کہ حالات اب کی بار اس سے بہتر ہوں۔