تحریر : ڈاکٹر بی اے خرم پریمی لوگ یعنی محبت کے پجاریوں نے چودہ فروری کو ویلنٹائن ڈے کے طور پہ منانا شروع کیا ہوا ہے ویلنٹائن ڈے کیا ہے اس کی حقیت کیا ہے اور اس کی ابتدا کس طرح ہوئی کیا بحیثیت مسلمان ہمیں بھی ”عاشقوں کے تہوار ”کو منانا چاہئے۔؟ کیا ہمیں دین اسلام اس کی اجازت دیتا ہے۔؟ویلنٹائن ڈے کا آغاز تقریباً 1700 سال قبل رومیوں کے دور میں ہوا تھا اس دور میں رومیوں میں بت پرستی کا دوردورہ تھا رومی بادشاہ کلاودیوس کو جنگ کے لئے لشکر تیار کرنے میں مشکل ہوئی تو اس نے اس کی وجوہات کا پتہ لگایا ، بادشاہ کو معلوم ہوا کہ شادی شدہ لوگ اپنے اہل و عیال اور گھربار چھوڑ کر جنگ میں چلنے کے لئے تیار نہیں ہیں تو اس نے شادی پر پابندی لگا دی لیکن ویلنٹائن نے اس شاہی حکم نامے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نہ صرف خود خفیہ شادی رچالی ، بلکہ اور لوگوں کی شادیاں بھی کرانے لگا۔، جب بادشاہ کو معلوم ہوا تو اس نے ویلنٹائن کو گرفتار کیا اور 14 فروری کو اسے پھانسی دے دی رومیوں نے پوپ ویلنٹآئن کو بت پرستی چھوڑ کر عیسائیت اختیار کرنیکے جرم میں سزائے موت دی تھی پھر جب خود رومیوں نے عیسائیت کو قبول کیا تو انہوں نے پوپ ویلنٹائن کی سزائے موت کے فیصلے کے دن کو” یوم شہید محبت” کے نام سے منسوب کیا اس تہوار کا آغاز ایک رومی تہوار لوپر کالیا کی صورت میں ہوا۔ قدیم رومی مرد اس تہوار کے موقع پر اپنی دوست لڑکیوں کے نام اپنی قمیضوں کی آستینوں پر لگا کر چلتے تھے۔ بعض اوقات یہ جوڑے تحائف کا تبادلہ بھی کرتے تھے۔ بعد میں جب اس تہوار کوسینٹ ‘ویلن ٹائن’ کے نام سے منایا جانے لگا تو اس کی بعض روایات کو برقرار رکھا گیا۔ اسے ہر اس فرد کے لئے اہم دن سمجھا جانے لگا جو رفیق یا رفیقہ حیات کی تلاش میں تھا۔ سترہویں صدی کی ایک پرامید دوشیزہ سے یہ بات منسوب ہے کہ اس نے ویلن ٹائن ڈے والی شام کو سونے سے پہلے اپنے تکیہ کے ساتھ پانچ پتے ٹانکے اس کا خیال تھا کہ ایسا کرنے سے وہ خواب میں اپنے ہونے والے خاوند کو دیکھ سکے گی۔ بعد ازاں لوگوں نے تحائف کی جگہ ویلنٹائن کارڈز کا سلسلہ شروع کر دیا۔
دین اسلام کے اصول سنہری اور لازوال ہیں قرآن مجید میں صراط مستقیم پہ چلنے کی تلقین کی گئی ہے ہمیں بتایا گیا ہے کہ معاشرے میں کس طرح زندگی گزارنی ہے ”ایمان والوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہ نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کو بھی محفوظ رکھیں یہ ان کے لیے بہت پاکیزہ ہے بے شک اللہ جانتا ہے جو وہ کرتے ہیں ، اور ایمان والیوں سے کہہ دو کہ اپنی نگاہ نیچی رکھیں اور اپنی عصمت کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر جو جگہ اس میں سے کھلی رہتی ہے اوراپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈالے رکھیں اوراپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر اپنے خاوندوں پر یا اپنے باپ یا خاوند کے باپ یا اپنے بیٹوں یا خاوند کے بیٹوں یا اپنے بھائیوں یا بھتیجوں یا بھانجوں پر یا اپنی عورتوں پر یا اپنے غلاموں پر یا ان خدمت گاروں پر جنہیں عورت کی حاجت نہیں یا ان لڑکوں پر جو عورتوں کی پردہ کی چیزوں سے واقف نہیں اور اپنے پاؤں زمین پر زور سے نہ ماریں کہ ان کا مخفی زیور معلوم ہوجائے اوراے مسلمانو تم سب اللہ کے سامنے توبہ کرو تاکہ تم نجات پاؤ ”(سورة النّور31،30)۔
ایک عیسائی نے عیدالفطر ادا کی،ایک ہندو نے عید الضحی پہ قربانی دی،ایک یہودی نے ماہ رمضان میں روزے رکھے ،کیاکبھی آپ نے سنااور دیکھا۔۔؟یقیناسب دوستوں نے کبھی سنا نہ کبھی دیکھایہ ایک سچی حقیقت ہے اور جو ہم لکھنے جا رہے ہیں وہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے ہم کسی طور پہ اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کوئی لکھے نہ لکھے ڈاکٹر خرم تو لکھے گاویلنتائن ڈے جی ہاں وینٹائن ڈے کاہر سو چرچہ ہے غیروں کی ”فرسودہ اور بیہودہ” رسم کو ہم بحیثیت مسلمان منا رہے ہیں ویلنٹائن ڈے کا بڑے جوش و جذبہ سے اہتمام کرتے ہیںیہ ویلنٹائن ڈے جو ہم مناتے ہیں کیا بحیثیت مسلمان ہمیں زیب دیتا ہے جس طرح عیسائی،ہندواور یہودی عید الفطر،بقر عید پہ قربانی اور ماہ صیام میں روزے نہیں رکھ سکتے تو پھر ہمیں ویلنٹائن ڈے منانا چاہیئے۔؟
Valentine’s Day
ذرا سوچئے غور و فکر کیجئے یہ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے اف اللہ اظہار بھی مشکل ہے ہم کچھ کہہ بھی نہیں سکتے ایک لڑکی سرخ لباس میں برقعہ میںیا پھر چادر میں ایک نامحرم مرد کوپارک ،ریسٹورینٹ ،کیفے ٹیریایا پھرکسی کار،موٹر بائک پرویلنٹائن ڈے کے موقع پرتحفہ محبت دیتے اور لیتے ہوئے کیا آپ پسند کریں گے کہ وہ آپ کی بہن،بیٹی،بیوی یا پھرماں ہویقیناًیہ سب کچھ آپ کو ناگوار گزرے گااسی طرح کوئی اور بھی غیرت مند یہ بات پسند نہیں کرے گاآئیں عزتوں کی حفاظت کریں نہ کسی کی عزت پہ نظر ڈالیں اورنہ ہی اپنی عزت کو سربازار رسوا ہونے دیں ہمیں صاف صاف بتا دیا گیا ہے کہ اپنی نگاہوں ،شرم گاہوں کی حفاظت کیسے کرنا ہے قرآن مجید میں بے حیا مرد اور بے حیا عورت کی سزا مقرر ہے۔
”بدکار عورت اور بدکار مرد سو دونوں میں سے ہر ایک کو سو سو درّے مارو اور تمہیں اللہ کے معاملہ میں ان پر ذرا رحم نہ آنا چاہیئے اگر تم اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہو اور ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت کو حاضر رہنا چاہیئے” (سورة النّور2)۔ وطن عزیزپاکستان میں ” ویلنٹائن ڈے” کا تصور نوے کی دہائی کے آخر میں مقبول ہوا۔ شہری علاقوں میں اسے جوش وخروش سے منایا جاتا ہے۔پھولوں کے بازار سج جاتے ہیں پھولوں کی فروخت میں کئی سو گنابڑھ جاتی ہے۔اسی طرح محبت بھرے کارڈز کی فروخت ہوتی ہے۔
ویلنٹائن ڈے کے بارے میں سیکولر اور آزاد خیال دانشور طبقہ کی رائے یہ ہے کہ ویلنٹائن ڈے خوشیاں اور محبتیں بانٹنے کا دن ہے نوجوان لڑکے اور لڑکیا ں ایک دوسرے کو پھول اور دیگر تحائف کا تبادلہ کرتے ہوئے محبت کا اظہار کرتے ہیں ہمیں غیر مسلم کی اندھی تقلیدنہیں کرنی چاہئے اور وہ بھی ایسی تقلید جس میں بے حیائی کا پہلو نکلتا ہوذرا قرآن پاک کا فیصلہ بھی سن لیں جس میں ایمان والوں کے لئیے کیا حکم ہے۔
”اے ایمان والو شیطان کے قدموں پر نہ چلو اورجو کوئی شیطان کے قدموں پرچلے گا سو وہ تو اسے بے حیائی اور بری باتیں ہی بتائے گا” (21 سورة النّور)۔
عالم اسلام کے لئے یہ بات باعث شرم ہے کہ ہم مسلمانوں نے یہ تہوار منانا شروع کردیا ہے یہ تہوار کم وبیش ہر اسلامی ملک میں اپنی جڑیں مضبوطی سے گاڑچکا ہے اور امت مسلمہ کے نوجوانوں نے کھلے دل ودماغ سے نہ صرف اسے اپنالیا ہے بلکہ وہ یہود ونصاری سے بھی بڑھ کر زیادہ گرم جوشی اور رواداری کے ساتھ اسے منانے کا خصوصی اہتمام و انتظام کرتے ہیں غیر مسلم کی اندھی تقلید کی بجائے ہمیں دین اسلام کے سنہری اور لازوال اصولوں کو اپنا کر دین و دنیا دونوں میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔