اس عید الاضیٰ تک، اعلیٰ تعلیم یافتہ مظلومہ امت، پاکستان کی بیٹی ، امریکا میں ٨٦ سالہ قیدی، حافظہ قرآن ڈاکٹر عافیہ صدیقی صاحبہ ٣٢ عید الاضیٰ اور عید الفطر غیر مسلم امریکا میں گزار چکی ہے۔اے کاش وہ کب پاکستان ،اپنی وطن، اپنے گھر میں اپنی بوڑھی ماں، دکھیا بہن، رشتہ داروں اور اپنے معصوم بچوں کے عید گزارے گی۔ جب بھی عید آتی ہے تو اندروان اور بیرون ملک لوگ اپنے والدین، بچوں اور رشتہ داروں سے ملنے اپنے اپنے گھروں کو واپس آنے کے انتظامات کرتے ہیں۔ اسی طرح جانور اورپرندے بھی شام ہوتے ہی ہرروز اپنے گھونسلوں کا رخ کرتے ہیں۔ انسانوں، جانوروں اور پرندوں کو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ننے منے بچے گھونسلوں میں ان کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔ ایسے پرندے بھی ہیں جو شدید سردی میں نسبتاً کم سرد علاقوں کی طرف اُڑان بھر کر پہنچ جاتے ہیں تا کہ ان کی زندگی کا کچھ سما خیریت اور عافیت سے گزر جائے ۔ اور اس کے بعد وہ پھر اپنے مستقل مقام پر واپس چلے جاتے ہیں۔ یہ عمل صدیوں سے جاری ہے اور آنے واے وقتوں میں بھی جاری رہے گا کیونکہ یہ ہی فطرت ہے۔ یہ بات بھی ہمیں معلوم ہے کہ اگر انسان فطرت کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو صدیوں کی تاریخ گواہ ہے بلا آخر ناقامیاب ہو جاتا ہے۔ ایک نہ ایک دن وقت کا جابر شیطان کبیر امریکا بھی مظلومہ امت عافیہ صاحبہ کو بھی رہا کرنے پر مجبور ہو جائے گا اور وہ آزاد فضا میں اپنے گھر پہنچ سکے۔ان شا ء اللہ۔
ان ہی جذبات کو ہم سامنے رکھ کر دیکھیں کہ غیر ایک مسلم ملک ،امریکا میں ایک مسلمان خاتون مظلومہ امت اعلیٰ تعلیم یافتہ حافظہ ڈاکڑ عافیہ صدیقی ٣٢ عیدیں گزار چکی ہیں تو ایک انسان ہوتے ہوئے ہمارے احساسات کیسے ہونگے۔ عام عادمی کے احساسات کی کیا بات کریں خود ٨٦ سالہ قیدی عافیہ صاحبہ کی بوڑھی والدہ ،دکھیابہن، ماں سے ملنے کے لیے برسوں سے ترسنے اور اللہ سے فریا د کرنے والے بچے، بیٹا، بیٹی اور غموں سے نڈھال عزیز و اقارب پر کیا گزرتی ہوگی۔
عافیہ صاحبہ کو ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے دور حکمرانی میں خفیہ والوں نے کراچی سے اسلام آبادوران سفر، تین بچوں کے ساتھ اغوا کر لیا گیا تھا۔دو بچے ایک مدت کے عافیہ صاحبہ کے خاندان کے حوالے کر دیے گئے تھے۔ ایک بچہ سلیمان جو اُس وقت چھ ماہ کا تھا اس کا ابھی تک کوئی اتا بتا نہیں کہ وہ کہاں اور کس حالت میں۔ایک بچے کا اتا پتہ معلوم نہ ہونے اور دو بچوں کا کراچی پاکستان میں نانی اور خالہ کے پاس برسوں ہونا اور ماں سے ملاقات نہ ہونا، ایک ماں ہی محسوس کر سکتی ہے۔ کسی اور کو اس غم کا کیا احساس ہوسکتا ہے۔ عافیہ صاحبہ کے بیٹے احمد اور بچی مریم کی اپنی ماں سے محبت دیکھیں کہ وہ ہر سال اپنی پاکٹ منی سے عید الضحیٰ کے موقعہ پر جانور خرید کر قربانی کرتے ہیں۔ شیطان کبیر کی قید میںعافیہ صاحبہ اس عید الاضیٰ جو ٣٣ویں عید ہے جو مسلمانوں کے لیے خوشی کا موقعہ ہے وہ کیا سوچتی ہو گی۔ اس کے دکھ اور کرب کا کیا حال ہوگا اور وہ سوچتی ہو گی کہ اے رب آج کے مسلمان حکمران بستی کی انتہا کو پہنچے ہوئے ہیں۔ میں کس سے فریاد کروں اورکس سے منصفی چاہوں۔اے اللہ ایک آپ ہی ہیں کہ جس سے انصاف کی توقع رکھی جا سکتی ہے۔
مقافات عمل دیکھیں کہ ایک وہ وقت تھا کہ ایک مظلوم مسلمان عورت جو ملکِ ہندوستان کے ایک علاقہ سندھ میںڈاکوں کی قید میں تھی۔قیدی عورت نے اُس وقت کے مسلمان حکمران سے اپنی رہائی کی فریاد کی۔مسلمان حکمران نے قید عورت کی فریاد پر اپنے کمانڈر محمد ابن قاسم کو مسلمان قیدی عورت کی مدد کرنے کے احکامات دیے۔مسلمان کمانڈر نے راجہ داہر کو فوراً للکارا اور کہا کہ مسلمان عورت کو اپنے ملک میںموجود ڈاکوںکی قید سے رہا کروا کر اس کے گھر خیریت سے روانہ کرو۔ مگر جب راجہ داہر نے بہانا کرتے ہوئے، جواب دیا کہ ڈاکوں پر میرا کنٹرول میں نہیں ۔ میں آپ کے حکم پر عمل نہیں کر سکتا۔ تو مسلمان کمانڈر نے خیرت میں آکر صرف ایک مسلمان قید عورت کی فریاد پر سندھ پر حملہ کیا ۔ اسی حملے کی وجہ سے ہندوستان میں اسلام کو قدم جمانے کا موقعہ ملا اور سندھ تاریخ میں باب اسلام کہلایا۔
زمانے کے شب وروز کو دیکھیں کہ ایک مسلمان ملک، مملکتِ اسلامی جمہوریہ پاکستان، جو اسلام کے نام سے جمہوری انداز میں وجود میںآیا۔ اس کا آئین بھی اسلامی ہے۔ اس پر بار بار ڈکٹیٹر جمہوری حکومتوں کو طاقت کے زور پر ختم کرے کہ حکمران بن بیٹھتے ہیں۔ پھر عوام کے غیض و غضب کا نشانہ بن کر تخت سے اُترتے رہے ہیں ۔ ان ہی ڈکٹیٹرں میں سے ایک ڈکٹیٹر پرویز مشرف مسلمان حکمران کی پستی کی انتہا کو دیکھیں کہ اُس نے چھ سو مسلمانوں کو ڈالر کی خاطر ایک غیر مسلم ملک امریکا کوفروخت کیا تھا۔ اور فخر سے اپنی تحریر کردہ کتاب” سب سے پہلے پاکستان” میں اس جرم کا ذکر بھی کیا۔ ان قیدیوں میںمظلومہ امت ،پاکستان کی بیٹی، ایک اعلی تعلیم یافتہ حافظہ قرآن ، بین الاقوامی شہرت یافتہ ، جو امریکا میں امریکی عوام کو مذہب اسلام کی طرف راغب کرانے کی مہم چلائے ہوئی تھیں، جن کا نام ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہے، بھی شامل تھی۔جس کا دکھڑاپاکستانی عوام اور دنیا کے منصبوں کے سامنے بیان کرنے کے لیے ہم نے قلم اُٹھایا ہے۔
واہ رے مقافات عمل کہ ایک وقت مسلمان حکمران صرف ایک مسلمان عورت کو قید سے رہائی دلانے کے لیے ایک ملک پر حملہ کر کے اسے رہائی دلاتاہے ۔اور اب ایکمسلمان ملک کا مسلمان ڈکٹیٹرحکمران کی پستی کی انتہا کودیکھیں کہ ڈالر کی خاطر اعلیٰ تعلیم یافتہ حافظہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی صاحبہ کو غیر مسلم حکومت امریکا کے حوالے کرتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ڈکٹیٹر پرویز مشرف کو اللہ نے سزا دی ہے۔ درجنوں مقدمات، جس میں غداری کا مقدمہ بھی ہے۔ ڈکٹیٹر ملک سے فرار ہو گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو کے مطابق ایک ایسی مرض میں مبتلا ہے کہ جس سے انسان کے جسم کے اعضا گھل جاتے ہیں اور بلا آخر موت واقع ہوجاتی ہے۔
٨٦ سالہ نا حق قیدی عافیہ صاحبہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صاحبہ نے ایک کرشماتی انداز میں اپنی بہن کو انصاف اور قید سے رہائی دلانے کے لیے مہم چلائی ہوئی ہے۔ ایک ویب سائٹ” عافیہ موومنٹ” پر یہ ساری کاروائی دیکھی جا سکتی ہے۔ راقم اور دوسرے کالم نگاروں نے اس مہم کو اپنے کالموں میںابلاغ کے لیے پل پل خبروں سے عوام کو روشناش کراتے رہے ہیں۔ تا کہ نا اہل پاکستانی حکمرانوں پر دبائو بڑھے اور وہ مظلومہ امت عافیہ صاحبہ کو رہائی دلانے کی کوشش کریں۔ہم پاکستانی عوام سے عرض کرتے ہیں کہ پاکستان کے حکمرانوں کی کبھی بھی عافیہ صاحبہ کی رہائی کی، ترجیج اوّل نہیں رہی ہے۔ہمیشہ ٹا ل مٹول کرتے رہتے ہیں۔ مثلاً کراچی میںعافیہ صاحبہ کی ضعیف بیمار والدہ صاحبہ سے ملاقات میں انہوں نے راقم کوبتایا کہ امریکا میںجاری مقدمہ میں وکیلوں کی تعیناتی کا وقت آیا تو اُس وقت کے وزیر خارجہ وکیلوں کی فیس میں، کرپشن میں ملوث تھے۔ اسی ملاقات میں عافیہ صاحبہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صاحبہ نے بتایا کہ امریکی حکام سے ایک معافی نامہ کی مہم جاری ہے۔ ڈاکٹر فوزیہ صاحبہ عافیہ صاحبہ نے گارجین ہونے کے ناتے اپنے دستخط کر کے امریکہ بھیجے ۔ وائٹ ہائوس نے اس فارم پر قیدی عافیہ صاحبہ کے دستخط ثبت کرنے کا کہا۔ فوزیہ صاحبہ نے پاکستان کے کونصل خانے کو عافیہ کے دستخط لینے کے لیے فارم بھیجا۔ کونصلر صاحبہ نے ان کا نام ظاہر کر نے کی شرط پر بتایا کہ موجودہ وزیر خارجہ صاحب نے دستخط نہ کروانے کی ہدایت جاری کی ہیں۔ راقم نے فوزیہ صاحبہ کو صحیح پوزیشن تک پہنچنے کے لیے مشورہ دیا کہ آپ وزیر خارجہ سے خود اسلام آبادکر معلوم کریں۔ ان کے مطابق اللہ تعالیٰ ہمارے بیروکریٹ کو ہدیت دے وہ ملاقات کرانے میں رکاوٹیں ڈالتے ہیں اور پس پیش کرتے ہیں۔
اوباما کی صدرات کے ختم ہونے پر امریکا کے قانون کے مطابق اُسے اختیار تھا۔ کہ اگر کسی بھی قیدی کے لیے اگر ایک لاکھ لوگ عرضیاں وائٹ ہائوس کے دفتر ای میل کریں ،تو امریکا کے صدر کو اختیار ہے کہ وہ اُس قیدی کو رہا کرنے کاحکم جاری کر سکتا ہے۔ڈاکٹر فوزیہ صاحبہ نے کوشش کر کے اس ضرورت کو بھی پورا کیا مگر حکمرانوں کی وجہ سے بات نہ بنی۔امریکا سے کچھ وکیلوںنے پاکستان کا دورا کیا تھا ۔ انہوںنے کہا کہ امریکا میں عافیہ صاحبہ جیسے سیکڑوں قیدی جھوٹے مقدموں میں قید ہیں۔ اگر پاکستان کے حکمران ایک خط لکھ دیں تو امریکی صدر عافیہ کو رہا کرایا سکتا ہے۔ ڈاکٹر فوزیہ صاحبہ ایک ہفتہ اسلام آباد میں بیروکریٹ سے ملاقاتیں کرتی رہیں۔ اور بلا آخر کیبنٹ کی میٹنگ کی میٹنگ کی کاذ لسٹ میں اس بات کو رکھوایا۔مگر سابق وزیر اعظم صاحب نے ایک خط لکھنے کی بھی زحمت گورا نہیں کی۔عافیہ صاحبہ کی والدہ نے ملاقات میں بتایا کی اب سابق وزیر اعظم کا قید سے فون آیا اور کہا کہ کہیں،میںنے ان کو بددُعا تو نہیں دی۔ میں کہا میں کسی کو بھی بدعا نہیں دیتی۔ سندھ ہائی کورٹ میں ڈاکٹرفوزیہ صاحبہ نے رٹ پیٹیشن داخل کی کہ حکومت کو عدالت حکم صادر کرے کہ وہ بیرون ملکوں سے قیدیوں کی ان کے اپنے ملک میں تبادلے کا معاہدے کرے۔ اس پر عمل درآمند سے عافیہ صاحبہ باقی قید اپنے ملک پاکستان میں کاٹ سکتی تھی۔سندھ ہائی کورٹ نے ڈاکٹر فوزیہ صاحبہ کے حق میں فیصلہ کیا۔ مگرمرکزی حکومت نے آج تک یہ معاہدہ نہ کر سکی۔ ڈاکٹر فوزیہ صاحبہ نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلہ کو پاکستان کی سپریم کورٹ میں پیش کیا۔ مگر آخری پیشی پر گھنٹوں انتظار کرانے کے بعد سابق چیف جسٹس ثاقب نثارصاحب نے فیصلہ دیا کہ کورٹ کے اختیار میں مرکزی حکومت کو ایسا حکم دینے کا اختیار نہیں۔ نہ جانے سابق چیف جسٹس صاحب نے حکومت کوعوام کے چھوٹے چھوٹے حقوق دلانے کے لیے کئی احکامات جاری کرتے رہتے تھے مگر ٨٦ سالہ قیدی،مظلومہ امت، قوم کی بیٹی عافیہ صاحبہ کے کیس میں انہیں کیا مسئلہ تھا۔ڈاکٹر فوزیہ صاحبہ نے تو ملاقات میں بتایا کہ چیف جسٹس صاحب کہتے ہیں کہ ہم امریکا کو ناراض نہیں کر سکتے۔
صاحبو! امر واقع یہ بات ہے ٨٦ سالہ امریکی قیدی، مظلومہ امت، پاکستان کی بیٹی، اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلم خاتون، حافظہ قرآن، ڈاکٹر عافیہ صدیقہ صاحبہغیر مسلموں کی قید میں زندگی کی٣٢ عید الفطر اور عیدا لا ضحی گزار چکی ہے۔ اب چند دن بعد ٣٣ عید الاضحی آنے والی ہے۔ ہم اللہ سے دعا گو ہیں وہ مظومہ کی رہائی اور وطن واپسی اور اپنی بوڑھی ماں، بہن، رشتہ داروں اور محصوم بچوں کے پاس عید الاضحی منانے کی سبیل بنا دے۔ آمین