بلوچستان، خیبر پختونخواہ اور کراچی میں حساس اداروں، فوج اور قانون نافذ کر نے والے ادارے اور اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحباں دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سٹیٹک ہولڈرز اس خطرے کی حساسیت کو مد نظر ر کھتے ہوئے وہ تمام ایکشن لیں جس سے ان قوم کے محافظ اور عام لوگوں کو جتنا ممکن ہو تحفظ فراہم کیا جا سکے اس کے لئے ہم سب کو مل کر ایک دوسرے کا احساس کرنا ہو گا تاکہ ہم کسی قسم کے پروپیگنڈہ کا شکار ہو کر کسی بھی قسم کا ایکشن لینے سے پہلے ہر پہلو کا باریکی سے جائزہ لیں۔ یہی دہشت گردی کی لہر کراچی اور حیدرآباد کے بعد سندھ کے باقی حصوں میں بھی پھیل چکی ہے اسی طرح کا ایک واقعہ 24 جولائی کو سکھر کی بیراج کالونی میں آئی ایس آئی کے علاقائی دفتر پر ہوا۔
اس علاقے میں تمام بڑے سرکاری افسران، ملازمین اور حساس اداروں کے دفاتر اور رہائش گاہیں اور اس کے علاوہ عدلیہ کے قابل احترام ججز صاحباں کی رہائش گاہیں بھی موجود ہیں۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ اس ایریئے کو فول پروف سکیورٹی مہیا کی جاتی لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ اگراس طرح کے ایریاز بھی محفوظ نہیں ہیں تو عوام کو کس قسم کے تحفظ کی توقع کی جا سکتی ہے۔
کچھ عر صہ پہلے انہی خطرات کو مد نظر رکھتے ہوئے بیراج کالونی کی غیر محفوز داخلی راستوں کو بند کیا گیا تھا جس کا مقصد ڈی آئی جی ہائوس، کمشنر ہائوس، حساس اداروں کے دفاتر اور ججز کالونی کو اس طرح کے حادثات سے محفوظ کرنا تھا۔ یہ راستہ قریب 3 ماہ تک بلاک رہا لیکن کچھ شرپسند عناصر نے اس کے خلاف پروپیگنڈہ شروع کیا۔
Commissioner House
اس پروپیگنڈہ کا شکار ہوتے ہوتے Addl Registrar نے ہائی کورٹ سکھر بینچ میں اس روڈ کی بندش کے خلاف ایک پٹیشن دائر کی جس پر بینچ کے اعلیٰ عدلیہ کے معزز جج صاحبان نے تفصیلی جرح کئے بغیر اس Appeal کو منظورکر لیا اور روڈ کھولنے کی ہدایات جاری کیں جس کی وجہ سے دہشت گردوں کو موقع ملا کہ وہ اسی راستے کو استعمال کر کے بغیر کسی رکاوٹ کے اپنے ہدف تک بہ آسانی پہنچ گئے اور بارود سے بھری گاڑی کو حساس عمارات کے درمیان پھاڑ دیا۔
جس کی وجہ سے نہ صرف 4 قیمتی جانیں ضائع ہوئیں بلکہ سرکاری اور غیرسرکاری افراد زخمی بھی ہوئے جو ان زخموں کا کرب شاید زندگی بھر نہ بھلا سیکں گے۔ ان پے در پے حملوں کی شدت نے واضح کر دیا ہے کہ پوری قوم اس وقت ایک حالت جنگ میں ہے اور جنگیں کبھی بھی اکیلے نہیں جیتی جا سکتیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام ادارے اور معاشرتی اکائیاں اس حقیقت کا ادراک کر تے ہوئے مل جل کر ایک دوسرے کی ڈھال بنیں بجائے اس رویہ کے کہ شاید جنگ زبردستی ان پر مسلط کی جا رہی ہے۔
دہشتگردوں کی کاروائیاں اور انکی تیاریاں اور سازوسامان اس حقیقت کا غماز ہے کہ انکی پشت پناہی چند بڑی طاقتیں اپنے مزموم مقاصد کے لئے کر رہی ہیں اور ہمارے قومی سلامتی کے ادارے انتہائی محدود وسائل اور افرادی قوت کے ساتھ اگر ان بڑھتے ہو ئے خطرات کا مقابلہ کر رہے ہیں تو ہم سب کو بھی چاہیے کہ ان اداروں اور افراد کا نہ صرف ساتھ دیں بلکہ جس قدر ممکن ہو سکے انکی مد د بھی کی جائے۔ ان حالات میں ان عملی سیکیورٹی اقدامات سے اگر معمولی Inconvenience بھی ہو تو ہمیں خندہ پیشانی سے انہیں قبول کر نا چاہیے تاکہ اس کے عوض قیمتی جا نوں کو بچایا جا سکے۔
دہشتگردی کے اس عفریت کا ہم کو بحیثیت قوم مقابلہ کرنا ہے نہ کہ ہم اپنے ڈرائنگ روموں میں سکون سے بیٹھ کر یہ اعلان کر دیں کہ جیسے یہ چند مخصوص اداروں کی جنگ ہے۔ ان مشکل حالات میں ہم نے من حیث القوم اگر کمزوری دکھائی تو شاید پھر ہم آگے آنے والی مشکلات کا سامنا نہ کر پائیں گے۔