لاہور (جیوڈیسک) کردارہی فنکار کی پہچان ہے،غیر معیاری کام سے شناخت کھونا نہیں چاہتی، اسکرپٹ اور اپنے کردار سے مطمئن ہوئے بغیر کوئی پروجیکٹ سائن نہیں کرتی، پاکستان میں اعلی معیار کی فلمیں بننے لگی ہیں ، جس کو مزید مضبوط بنانے کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ کامیڈی، ایکشن، رومانٹک سمیت ہر قسم کی فلم بننی چاہیے، وقت کے ساتھ باکس آفس کی ترجیحات بھی بدل چکی ہیں ۔خو ش آئند بات یہ ہے کہ ہمارا فلم بین بھی کافی سمجھدار ہوچکا ہے۔
وہ صرف انٹرٹین ہونے نہیں بلکہ کچھ نیا بھی دیکھنا چاہتا ہے ۔ پاکستانی فلمیں بنانے والوں کی اکثریت بالکل نئی ہے، جو ناتجربہ کار ہونے کے باوجود فلم بینوں کے لیے ہر بار کچھ نیا فلیور لے کر آرہے ہیں ۔ماضی اور آج کی فلم انڈسٹری میں بہت تبدیلی آچکی ہے۔اس شعبے کو پڑھے لکھے لوگ جوائن کر رہے ہیں ۔
صنم سعید نے کہا کہ پچھلے دنوں میری فلم ’’ماہ میر‘‘ ریلیز ہوئی جس کو بے حد پسند کیا گیا ۔یہ سال میرے لیے اس لیے بھی اچھا ہے کہ اس میں میری دو فلمیں ’’بچانا‘‘ اور ’’ ماہ میر‘‘ نمائش ہوئیں دونوں اپنے موضوع کے اعتبار سے ایک دوسرے سے منفرد تھیں ۔ ’’ماہ میر‘‘ معروف شاعرمیر تقی میر کی زندگی پر بنائی جانے والی فلم ہے جب کہ ’’بچانا‘‘ کمرشل مسالہ فلم تھی۔
میری تیسری فلم ’’دوبارہ پھرسے‘‘ اور ’’آزاد‘‘ کامیڈی رومانٹک فلمیں ہیں۔ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ماڈلنگ کے ساتھ اداکاری سے بھی بھرپور لطف اندوز ہورہی ہوں۔ اداکاری اورماڈلنگ دونوں شعبوں میں تعداد سے زیادہ کوالٹی پر توجہ دیتی ہوں، اسی لیے کم مگر معیاری پروجیکٹس میں ہی نظر آتی ہوں۔ سٹیلائٹس چینلز کے اس دور میں اپنی شناخت کو برقرار رکھنے کے لیے پہلے سے دوگنا محنت کرنا پڑ رہی ہے۔