نور مقدم کیس: ملزم ظاہر جعفر کی والدہ کی ضمانت منظور، والد کی مسترد

Noor Muqaddam Case

Noor Muqaddam Case

اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) سپریم کورٹ نے نور مقدم قتل کیس کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے والد ذاکر جعفر کی درخواست ضمانت مسترد کر دی۔

نور مقدم قتل کیس کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے والدین کی درخواست ضمانت پر سماعت سپریم کورٹ میں ہوئی۔

وکیل درخواست گزار خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ذاکر جعفر اور عصمت آدم جی مقدمے میں نامزد نہیں تھے، مرکزی ملزم ظاہر جعفرکے پولیس کو بیان کے بعد والدین کو نامزد کیا گیا، کال ریکارڈز کے مطابق عصمت جعفر نے مرکزی ملزم سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔

جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ آپ ملزم اور اس کے والدین کے کال ریکارڈز اور رابطے پر دلائل دیں، وقوعے کے روز درخواست گزاروں کی جانب سے ملزم کو کئی کالز کی گئیں، اس موقع پر ضمانت کا فیصلہ کرنے سے مرکزی کیس متاثرہو سکتا ہے، عصمت جعفر کے اس واقعے میں کردار سے متعلق دلائل دیں۔

خواجہ حارث نے کہا کہ استغاثہ کے مطابق شام 6:35 سے 7:30 کے درمیان قتل ہوا، ایف آئی آر میں قتل کا درج وقت رات 10 بجے کا ہے۔

جسٹس قاضی امین نے کہا کہ اس موقع پر ضمانت دے کر استغاثہ کا پورا کیس فارغ نہیں کیا جا سکتا۔

وکیل درخواست گزارخواجہ حارث نے کہا کہ ملزمان پر صرف قتل چھپانے کا الزام ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ کیا ظاہر جعفر کی دماغی حالت کو ٹیسٹ کیا گیا ہے؟ جس پر خواجہ حارث نے بتایا کہ ملزم کی ذہنی حالت سے متعلق کوئی ٹیسٹ نہیں ہوا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کیس میں منشیات کا ذکر بھی ہے، کیا ملزم منشیات پر تھا؟

وکیل مدعی شاہ خاور نے عدالت کو بتایا کہ ملزم کا صرف منشیات کا ٹیسٹ کروایا گیا ہے، ذہنی کیفیت جانچنے کے لیے کوئی معائنہ نہیں ہوا۔

جسٹس قاضی محمد امین نے کہا کہ ملزم انکار کرے تو ذہنی کیفیت نہیں دیکھی جاتی، ذہنی کیفیت کا سوال صرف اقرار جرم کی صورت میں اٹھتا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ممکن ہے فون پر والد قتل کا کہہ رہا ہو، یہ بھی ممکن ہے روک رہا ہو جس پر وکیل خواجہ حارث نے کہا ممکن تو یہ بھی ہے کہ بیٹا باپ کو سچ بتا ہی نا رہا ہو۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ ٹرائل کی کیا صورت حال ہے؟ جس پر ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد نے بتایا کہ فرد جرم عائد ہو چکی، 8 ہفتوں میں ٹرائل مکمل کرنے کی ہدایت بھی ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ بظاہر ماں کے جرم میں شامل ہونے کے شواہد نہیں ہیں۔ خواجہ حارث نے بتایا کہ ماں نے 2 ٹیلیفون کالز گارڈ کو کی تھیں۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیے کہ یہ ایک سفاک قتل ہے جس کو چھپانے کی کوشش کی گئی ہے، اتنے سفاک قتل میں تمام پہلووں کو دیکھتے ہوئے ضمانت کس بنیاد پر ہو؟

خواجہ حارث نے کہا کہ کال ریکارڈز کی قانوناً کوئی اہمیت نہیں ہوتی، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر کال ریکارڈز بھول بھی جائیں تو ذاکر جعفر نے قتل کی پولیس کو اطلاع کیوں نہیں دی؟

جسٹس قاضی محمد نے کہا کہ وقوعہ کے بعد بھی ملزمان کا رویہ دیکھا جاتا ہے جبکہ ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد نے بتایا کہ والدہ کی بھی 11 کالز کا ریکارڈ موجود ہے۔

جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ جائزہ لیں گے کہ پولیس کو بلانے کی بجائے تھراپی ورکس کو کیوں کہا گیا؟

سپریم کورٹ نے ظاہر جعفر کے والد ذاکر جعفر کی درخواست ضمانت مسترد کر دی جبکہ والدہ عصمت آدم جی کی درخواست ضمانت 10 لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض منظور کر لی۔