تحریر: سید انور محمود نورین لغاری تقریباً ڈھائی ماہ قبل حیدرآباد سے لاپتہ ہوئی تھی اس کو گزشتہ جمعے اور ہفتے کی درمیانی رات لاہور میں انٹیلیجنس اداروں کی طرف سے کیے جانے والےایک آپریشن کے دوران بازیاب کرایا گیا ہے۔ جائے وقوعہ سے بازیاب کرائی گئی نورین لغاری حیدر آباد کے علاقے حسین آباد کی رہنے والی ہے۔ اس کے والد پروفیسر عبدالجبار لغاری سندھ یونیورسٹی میں شعبہ کیمسٹری میں استاد ہیں۔اسی جائے وقوعہ سے پولیس کو نورین کا کالج کارڈ اور اس کے والدکے شناختی کارڈ کی فوٹو کاپی ملی تھی۔جامشورو کی لیاقت میڈیکل یونیورسٹی میں سیکنڈ ایئر کی 22 سالہ نوعمرطالبہ نورین 10 فروری کی صبح گھر سے یونیورسٹی کا کہہ کر نکلی تھی لیکن واپس نہیں لوٹی۔ والدین پریشانی کا شکار ہوئے، اور جب کہیں سراغ نہ ملا تو 25 فروری کو حیدرآباد کے تھانے حسین آباد میں بیٹی کے اغوا کی رپورٹ درج کرائی۔ رپورٹ درج کرانے کے بعد پولس کی تحقیقات کی صورت میں یہ بات سامنے آئی کہ وہ لاہور کی بس میں سوار ہوئی تھی۔ پھر سوشل میڈیا پر اس کے حوالے سے یہ بیان سامنے آیا کہ وہ داعش دہشتگردوں کے پاس شام پہنچ گئی ہے۔
پندرہ اپریل کو لاہور میں دہشت گردوں کے ساتھ ایک مقابلے میں ایک دہشت گرد مارا گیا ہے، اور اس کے دو ساتھی حراست میں لیے گئے ہیں جن میں ایک لڑکی بھی شامل تھی بعد میں پتہ چلا کہ حراست میں لی جانے والی لڑکی حیدرآباد کی نورین لغاری ہے۔ اس سے پہلے پورئے پاکستان کا میڈیا نورین لغاری کو شام بھیج چکا تھا تھا جو صرف اور صرف ریٹنگ بڑھانے کی بھوک تھی۔پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے پیر سترہ اپریل کے روز اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر تے ہوئے بتایا کہ نورین لغاری نے فیس بک پر اپنے بحران زدہ ملک شام پہنچنے کا پیغام تو پوسٹ کیا تھا لیکن درحقیقت وہ کبھی شام گئی ہی نہیں۔اس موقع پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے نورین لغاری کا ایک ویڈیو پیغام بھی صحافیوں کو دکھایا، جس میں نورین کا کہنا تھا کہ وہ اپنی مرضی سے لاہور گئی تھی۔ اُسے کسی نے اغوا نہیں کیا تھا۔ اسے ایسٹر پر خودکش حملے میں استعمال کیا جانا تھا۔ اس کے مطابق (نورین کا شوہر بتایا جانے والا ) علی طارق نامی نوجوان شروع سے ہی دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث تھا۔ڈی جی آئی ایس پی آر کے بقول فیس بک پر نورین کے پیغام کے بعد اس کے والدین نے آرمی چیف سے مدد کی اپیل کی تھی اور آرمی چیف نے ملٹری انٹیلیجنس ایم آئی کو اس لڑکی کی بازیابی کے احکامات دیے تھے۔ میجر جنرل آصف غفور کے مطابق، ’’ہماری پہلی ترجیح یہ ہے کہ نورین لغاری اپنے گھر جا کر اپنی معمول کی زندگی گزارے‘‘۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ بظاہر نورین لغاری دہشتگردوں کے ہتھے لگ گی وہ انٹر نیٹ کے زریعے ایک ایسے شخص سے دوستی کربیٹھی جو دہشتگردی میں پوری طرح ملوث تھا، شاید یہ خبر بھی صیح ہو کہ نورین کو دہشتگردی میں استمال کرنے کے لیے اس کی شادی علی طارق نامی نوجوان سے کرادی گئی تاکہ نورین پوری طرح دہشتگردوں کے جال میں پھنس جائے۔ اور ایسا ہی ہوا بقول نورین کہ وہ اپنی مرضی سے لاہور گئی تھی۔ اُسے کسی نے اغوا نہیں کیا تھا۔ اسے ایسٹر پر خودکش حملے میں استعمال کیا جانا تھا۔دوسری جانب اس واقعے کے فوراﹰ بعد نورین کے بھائی افضل لغاری نےمختلف ذرائع ابلاغ سے گفتگو کر تے ہوئے حقائق سامنے لانے کا مطالبہ کر تے ہوئے یہ کہا تھا کہ نورین لغاری کا کسی دہشت گرد تنظیم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اُدھر لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر ڈاکٹر نوشاد شیخ نے بھی میڈیا سے گفتگو کر تے ہوئے کہا کہ تنہائی پسند نورین لغاری اچھے تعلیمی ریکارڈ کی حامل تھی۔ ان کے بقول یونیورسٹی میں شدت پسندی کی طرف مائل کرنے والا ماحول نہیں ہے۔ ڈاکٹر نوشاد کے مطابق یونیورسٹی کے اندر طلبا کو شدت پسندی کی ترغیب دینے کے کوئی شواہد نہیں ملے۔ البتہ ان کا کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ سوشل میڈیا پر نورین کو ذہنی طور پر ایسی کسی کارروائی کے لیے تیار کیا گیا ہو۔
جنوری 2016 میں بھی لاہور کی بعض خواتین کی اپنے بچوں سمیت شام روانگی کی خبریں میڈیا میں آئی تھیں لیکن بعد ازاں اسلام آباد میں دفتر خارجہ نے کہا تھا کہ پاکستان میں داعش کا کوئی وجود نہیں۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار تو ایک عرصے تک یہ ہی گردان کرتے رہے پاکستان میں داعش موجود نہیں ہے، تو پھر ہمیں یعنی پاکستانی عوام کو یہ تو بتادیں کہ اسلام آباد کی لال مسجد میں بیٹھا ہوا داعش کا دلال مولوی عبدالعزیز کس کی نمائندگی کررہا ہے۔برحال ہر پاکستانی اس بات کو جانتا ہے کہ داعش پاکستان میں موجود ہے اور اس کے سہولت کار بھی۔ مولوی عبدالعزیز پاکستان میں داعش کا سب سے بڑا حامی ہے لیکن وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثارکی نگاہ میں معصوم اور بے قصور ہے۔ چوہدری نثار جو نواز شریف حکومت میں دہشتگردوں کا حامی ہے یہ وزارت داخلہ میں دہشتگردوں کا بلاکر ان سے ملاقات کرتا ہے اور جب کوئی اسکے خلاف لکھے یا بولے تو یہ موصوف اپنی غلطی تسلیم کرنے کے بجائے دوسروں پر تنقید شروع کردیتے ہیں۔ مان لیتے ہیں کہ نورین لغاری شام نہیں گئی لیکن جو کام اس سے لیا جانا تھا وہ دہشتگردی کہلاتی ہے، اگر ایسٹر کے موقعے پر کوئی خودکش حملہ کامیاب ہوجاتا تو یہ ہی طالبان یا داعش کوئی ایک دہشتگرد تنظم اسے اپنا کارنامہ بتاتے ہوئے کہتی کہ یہ سب کچھ ہم نے اسلام کی سربلندی کے لیے کیا ہے۔
دہشتگردی کا ختم کرنا بیشک حکومت کی زمہ داری ہے ، ہماری مسلح افواج مسلسل دہشتگردوں سے لڑرہی ہے، پہلے آپریش ضرب عضب شروع کیا تو دہشتگردوں کے کافی زیادہ ٹھکانے ختم کردیے اور دہشتگردی کو11 سال کی کم ترین سطع پر لےآئے، پھر آپریشن دارالفساد شروع کیا تو دہشتگرد چوہوں کی طرح بلوں میں گھس گئے ہیں، لیکن اب بھی بھٹکی ہوئی راہ چھوڑنے کو تیار نہیں، یہ نوجوان بچوں کو کہیں مذہب کے نام پر اور کہیں محبت کے نام پر استمال کررہے ہیں۔ لاکھ نورین کے والد، بھائی اور یونیورسٹی کے استاد یہ کہیں کہ نورین لغاری تنہائی پسند تھی اور اچھے تعلیمی ریکارڈ کی حامل تھی۔ ان کے بقول یونیورسٹی میں شدت پسندی کی طرف مائل کرنے والا ماحول نہیں ہے، یہ سب صیح ہے لیکن کیا آپ کبھی اس 22 سال کی بچی کے دوست بنے، کیا آپنے اس کے خیالات اور نظریات کو جاننے کی کوشش کی، نہیں ایسا کچھ نہیں اور 22 سالہ نورین دہشتگردوں کے جال میں پھنس گئی، 22 سال کی عمر ایک خطرناک عمر ہے جہاں ان کمسن جذباتی نوجوانوں میں اتنی عقل نہیں ہوتی کہ یہ اچھے برئے کی تمیز کرسکیں، یہ ہی نورین کے ساتھ ہوا ہے۔
اگر آپکے بچے بھی 20 سے 30 سال کی عمر سے گذر رہے ہیں تو خدارا اپنے بچوں سے دوستی کریں، وہ کن کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں، وہ ٹی پر کیا دیکھتے ہیں، وہ انٹر نیٹ پر کیا کررہے ہوتے ہیں ، ان کے نظریات کیا ہیں ۔ یہ سب آپکو معلوم ہونا چاہیے ورنہ خدا نہ کرئے آپکے بچے بھی نورین لغاری بن سکتے ہیں۔ نورین لغاری ہم سب کی بیٹی ہے اور میری دعا ہے کہ نورین لغاری جلد رہا ہوکر اپنے والدین کے پاس پہنچے اور آیندہ اس سے یہ غلطیاں سرزدنہ ہوں۔