سیول (اصل میڈیا ڈیسک) شمالی کوریا نے ممکنہ طور پرایک بار پھر سمندر میں بیلیسٹک میزائل فائر کیے ہیں۔ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران اس کا اس نوعیت کے ہتھیاروں کا یہ دوسرا تجربہ ہے۔
جنوبی کوریا کی فوج کے مطابق شمالی کوریا نے جمعرات کی صبح سمندر میں کم سے کم دو میزائل داغے تاہم اس نے یہ نہیں بتایا کہ کس نوعیت کے میزائل فائر کیے گئے ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک قرارداد کے تحت شمالی کوریا پر بیلیسٹک میزائل فائر کرنے پر پابندی عائد ہے تاکہ اسے اپنے جوہری پروگرام میں توسیع کے طور پر راکٹ تیار کرنے سے باز رکھا جا سکے۔
جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول میں فوج کے سربراہ نے ایک بیان میں کہا کہ نامعلوم قسم کے میزائیل جنوبی صوبے ہمگیونگ سے جاپانی سمندر میں لانچ کیے گئے جسے شمالی کوریا میں بحیرہ مشرق کہا جاتا ہے۔
جنوبی کوریا کے صدارتی محل سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ میزائل فائر کیے جانے کے اس واقعے پر بات چیت کے لیے جلد ہی اپنی قومی سلامتی کی ایک میٹنگ طلب کرے گا۔
ادھر جاپان کا کہنا ہے کہ اسے اس بات کا شبہ ہے کہ جنوبی کوریا نے دو بیلیسٹک میزائل لانچ کیے ہیں اور اگر یہ بات سچ ہے تو پھر امریکی صدر جو صدر بائیڈن کی انتظامیہ کے دور میں جنوبی کوریا کی جانب سے اس نوعیت کے ہتھیار کا یہ پہلا تجربہ ہوگا۔
جاپان کے وزیر اعظم یوشوہیدی سوگا کا کہنا تھا، ”ایک سال کے بعد انہوں نے اس طرح کے میزائیل لانچ کیے ہیں۔ اس سے ہمارے ملک اور خطے کے امن اور سکیورٹی کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ یہ اقوام متحدہ کی قرارداد کی بھی خلاف ورزی ہے۔”
تیس جون 2019ء کو ہونے والی یہ ملاقات اس لیے بھی ایک تاریخی واقعہ تھی کہ ڈونلڈ ٹرمپ یوں ایسے پہلے امریکی صدر بن گئے، جنہوں نے اپنے دور اقتدار میں ہی شمالی کوریائی سرزمین پر قدم رکھا تھا۔ ٹرمپ سیئول سے ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعے اس ملاقات کے مقام پر پہنچے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ آئندہ ماہ وہ اپنے دورہ امریکا کے دوران صدر بائیڈن سے اس میزائل لانچ سمیت شمالی کوریا کے مسئلے پر کھل کر بات کریں گے۔
جمعرات کو شمالی کوریا کی جانب سے میزائل فائر کیے جانے کا اس ہفتے کے دوران یہ دوسرا واقعہ ہے۔ جنوبی کوریا کے حکام نے گزشتہ روز ہی بتا یا تھا کہ چند روز قبل بھی شمالی کوریا نے اپنے مغربی ساحل سے دو میزائل فائر کیے تھے تاہم وہ بیلیسٹک میزائل نہیں تھے۔
حالانکہ امریکا نے اس میزائل تجربے کو یہ کہہ کر زیادہ اہمیت نہیں دی کی یہ شمالی کوریا کا حسب معمول رویہ ہے جس سے سکیورٹی کونسل کی قراداد کی مخالفت نہیں ہوتی ہے۔ امریکی صدر بائیڈن نے نامہ نگاروں سے بات چیت میں کہا، ”محکمہ دفاع کے مطابق یہ حسب روایت معمول کا عمل ہے۔”
حال ہی میں امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن اور وزیر خارجہ انٹونی بلینکن کے دورے کے دوران جب جنوبی کوریا اور امریکا نے مشترکہ فوجی مشقیں کیں تو شمالی کوریا نے اس کے جواب میں اتوار کے روز دو میزائل فائر کیے تھے۔
امریکی وزیر خارجہ نے سیول اور ٹوکیو کے دورے کے دوران بار بار اس بات پر زور دیا تھا کہ شمالی کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے باز رکھنا بہت اہم ہے۔ واشنگٹن کو اس بات کی توقع ہے کہ وہ اس حوالے سے شمالی کوریا سے دوبارہ بات چیت شروع کر سکے گا۔
لیکن شمالی کوریا کا امریکی پابندیوں اور جنوبی کوریا کے ساتھ مشترکہ مشقوں کا حوالہ دیتے ہوئے اس بات پر اصرار ہے کہ پہلے امریکا اس کے تئیں معاندانہ رویہ ختم کرے۔
سینیئر امریکی حکام کا کہنا ہے کہ صدر بائیڈن کی انتظامیہ اس حوالے سے ایک نئی حکمت عملی وضع کرنے میں مصروف ہے اور وائٹ ہاؤس اس حوالے سے اپنے اتحادی جاپان اور جنوبی کوریا سے بھی بات چیت کرنا چاہتا ہے۔