پیانگ یانگ (اصل میڈیا ڈیسک) شمالی کوریا نے بدھ کے روز دو بیلسٹک میزائلوں کا تجربہ کیا ہے۔ پیانگ یانگ نے دو روز قبل بھی ایک کروز میزائل کا تجربہ کیا تھا۔ اِس وقت اُس کے اتحادی ملک چین کے وزیر خارجہ جنوبی کوریا کے اپنے ہم منصب سے بات چیت کررہے ہیں۔
جنوبی کوریا کے جوائنٹ چیف آ ف اسٹاف نے بدھ کے روز بتایا کہ شمالی کوریا نے پیر کے روز طویل دوری تک مار کرنے والے کروز میزائل کے تجربے کے بعد آج بدھ کو دو بیلسٹک میزائلوں کا تجربہ کیا ہے۔ جاپان کے کوسٹ گارڈ نے بھی کہا کہ ایک ایسی شے جو کہ بیلسٹک میزائل ہوسکتی ہے، شمالی کوریا سے داغی گئی اور اس کے خصوصی اقتصادی زون سے باہر جاکر گر گئی۔
جاپانی وزیر اعظم یوشی ہیڈے سوگا نے میزائل تجربے کی مذمت کرتے ہوئے اسے ‘شرمناک‘ قرار دیا۔ سوگا اور جنوبی کوریا کے صدر مون جائی نے اس تازہ ترین پیش رفت پر غوروخوض کے لیے اپنے اپنے ملکوں میں قومی سلامتی کونسل کے اجلاس طلب کرلیے ہیں۔
شمالی کوریا نے بیلسٹک میزائلوں کا تجربہ ایسے وقت کیا ہے جب اُس کے اتحادی ملک چین کے وزیر خارجہ وانگ وی جنوبی کوریا کے اپنے ہم منصب کے ساتھ سیئول میں بات چیت کررہے ہیں۔
چھ ماہ میں بیلسٹک میزائل کا پہلا تجربہ چین اور جنوبی کوریا کے وزرائے خارجہ، شمالی کوریاکی جانب سے حالیہ دنوں کیے جانے والے میزائل تجربات کے مضمرات کے علاوہ پیانگ یانگ اور واشنگٹن کے درمیان جوہری ہتھیاروں کے مسئلے پر تعطل کے شکار مذاکرات کے سلسلے میں بھی تبادلہ خیال کریں گے۔
اگر اس بات کی تصدیق ہوجاتی ہے کہ شمالی کوریا نے بیلسٹک میزائل کا تجربہ کیا ہے تو یہ اس سال مارچ کے بعد بیلسٹک میزائل کا ایسا پہلا تجربہ ہوگا جوکہ اقوام متحدہ کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کی مزید خلاف ورزی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ بیلسٹک میزائل شمالی کوریا کی جانب سے جوہری صلاحیت سے لیس پہلا ہتھیار ہوگا۔ پیانگ یانگ نے گزشتہ ہفتے طویل دوری تک مار کرنے والے کروز میزائل کا کامیاب تجربہ کیا تھا اور اسے ”انتہائی اہمیت کا حامل ایک اسٹریٹیجک ہتھیار” قرار دیا تھا۔
شمالی کوریا کے مطابق یہ کروز میزائل نیوکلیائی وار ہیڈ سے آراستہ ہیں۔ یہ کروز میزائل پندرہ سو کلومیٹر کی دوری تک مار کرسکتے ہیں۔ اس طرح یہ شمالی کوریا سے پورے جاپان اور وہاں موجود امریکی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن اور سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ہنوئی میں سن 2019 میں ہونے والی بات چیت ناکام ہوجانے کے بعد سے ہی پیانگ یانگ اپنے جوہری پروگرام پر تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ شمالی کوریا نے اپنی پرانی جوہری تنصیبات کو ختم کرنے کے بدلے میں اس کے خلاف عائد پابندیوں کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ البتہ اس نے سن 2017 کے بعد سے اب تک کوئی جوہری تجربہ یا بین براعظمی بیلسٹک میزائل کا تجربہ نہیں کیا ہے۔
امریکا کے ساتھ بات چیت ناکام ہوجانے کے بعد کم جونگ اُن کی حکومت نے اعلیٰ ٹیکنالوجی والے ہتھیار تیار کرنے کی بھی دھمکی دی تھی اور بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے مذاکرات کی پیش کش کو یہ کہتے ہوئے ٹھکرا دیا تھا کہ واشنگٹن کو پہلے ‘مخاصمانہ‘ پالیسیاں ترک کرنی پڑیں گی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا کی جانب سے میزائلوں کے تجربات کے یہ اقدامات غالباً بائیڈن انتظامیہ پر دباؤ بنانے کی کوشش ہے۔
دریں اثناء چینی وزیر خارجہ نے جنوبی کوریا کے اپنے ہم منصب کے ساتھ ملاقات سے قبل میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”ہم سب کو جزیرہ نما کوریا میں امن اور استحکام کے لیے مد د کرنی چاہیے۔” ان کا کہنا تھا کہ صرف شمالی کوریا ہی نہیں بلکہ دیگر ممالک بھی فوجی سرگرمیوں میں مصروف ہیں اور اسے دیکھتے ہوئے ”ہم سب کو مذاکرات بحال کرنے کے لیے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔”