شمالی کوریا (اصل میڈیا ڈیسک) شمالی کوریا نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے گزشتہ روز جس میزائل کا کامیاب تجربہ کیا وہ “ہائپر سونک” ہتھیار تھا۔ انتہائی تیز ترین ہتھیاروں کے اس نظام نے خطرات کی سطح کافی بڑھادی ہے کیونکہ اس کا مقابلہ کرنا بہت مشکل ہے۔
شمالی کوریا کی طرف سے آج تک کیے جانے والے ہائپر سونک میزائل کا یہ دوسرا تجربہ تھا۔ اس سے قبل اس نے ستمبر میں ہائپر سونک میزائل کے کامیاب تجربہ کا دعویٰ کیا تھا، جبکہ اکتوبر کے بعد سے شمالی کوریا کی طرف سے میزائل کا یہ پہلا تجربہ ہے۔
پیونگ یانگ نے کیا بتایا؟ شمالی کوریاکی سرکاری خبر رساں ایجنسی کے سی این اے نے بتایا کہ میزائل میں ایک ‘ہائپر سونک وارہیڈ’ لگا ہوا تھا اور”اس نے 700 کلومیٹر دور اپنے ہدف کو کامیابی سے نشانہ” بنایا۔
کے سی این اے نے مزید کہا کہ بدھ کے روز کیے جانے والے تجربے سے” ایکٹیو فلائٹ اسٹیج میں میزائل کے فلائٹ کنٹرول اور استحکام اور ہائپر سونک وارہیڈ لے جانے والی نئی تکنیک کی کارکردگی کی دوبارہ تصدیق ہوگئی۔”
خبررساں ایجنسی نے بتایا کہ “ہائپر سونک میزائل کے یکے بعد دیگر کامیاب تجربات میزائل سیکٹر میں اسٹریٹیجک اہمیت کے حامل ہیں اور اس سے ریاست کی مسلح فورس کو اسٹریٹیجک لحاظ سے جدید بنانے میں مدد ملے گی۔”
ہائپر سونک میزائل کے کامیاب تجربے کے شمالی کوریا کے دعوے کی تاہم فی الحال آزادانہ تصدیق نہیں ہو پائی ہے۔
اقوام متحدہ سلامتی کونسل نے شمالی کوریا کی طرف سے تمام طرح کے بیلسٹک میزائل اور جوہری تجربات کو ممنوع قرار دے رکھا اور اس کے جوہری پروگرام پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔
ہائپرسونک ہتھیار آخر اتنے اہم کیوں ہیں؟ شمالی کوریا کی طرف سے بدھ کے روز بحیرہ جاپان میں کیے گئے میزائل تجربے کی خطے کے کئی ملکوں نے نشاندہی کی۔ امریکا، جنوبی کوریا اور جاپان نے اس تجربے کی نکتہ چینی کی۔
ہائپر سونک میزائل آواز کی رفتار کے مقابلے پانچ گناز یادہ تیزی سے مار کرسکتے ہیں اور معیاری ہتھیاروں کے مقابلے کہیں زیادہ بہتر ہیں۔
بیلیسٹک میزائلوں کے برخلاف جو اپنے اہداف کو نشانہ بنانے سے قبل خلاء میں داخل ہوتے ہیں، ہائپر سونک ہتھیار کم اونچائی پر سفر کرسکتے ہیں اور اپنے راستے بھی تبدیل کرسکتے ہیں جس کی وجہ سے ان کو روکنا بہت زیادہ مشکل ہو جاتا ہے۔
شمالی کوریا کی طرف سے ایسے ہائپر سونک میزائلوں اور وارہیڈز کی تیاری کا مقصد غالبا ًیہ ہے کہ جنوبی کوریا اور امریکا کے میزائل ڈیفنس سسٹم کو چکمہ دیا جا سکے۔ امریکا اس وقت اپنے میزائل ڈیفنس سسٹم کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کر رہا ہے۔
مذاکرات بحال کرنے کی امریکا کی اپیل امریکا نے شمالی کوریا کے ہائپر سونک میزائل تجربے کی مذمت کی اور پیونگ یانگ سے مذاکرات بحال کرنے کی اپیل کی۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ایک ترجمان نے کہا، “یہ تجربہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعدد قراردادوں کی خلاف ورزی ہے اور شمالی کوریا نے اپنے پڑوسی ممالک اور بین الاقوامی برادری کے لیے خطرہ کھڑا کر دیا ہے۔”
امریکا اور شمالی کوریا کے درمیان مذاکرات سن 2019 سے تعطل کا شکار ہیں جب کم جونگ اُن اور اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان بات چیت ناکام ہوگئی تھی۔
ٹرمپ کے جانشین جو بائیڈن کی انتظامیہ نے شمالی کوریا کے نمائندوں سے ملاقات کرنے کی اپنی خواہش کا بارہا اظہار کیا ہے۔ واشنگٹن کا کہنا ہے کہ وہ جوہری ہتھیاروں کی عدم توسیع پر زور دے گا۔
دوسری طرف پیانگ یانگ مذاکرات سے اب تک انکار کرتا رہا ہے۔ وہ امریکا پر اس کے شمالی کوریا کے خلاف معاندانہ پالیسیاں اپنانے کا الزام لگاتا ہے۔
جنوبی کوریا کے صدر مون جائے اِن نے بھی شمالی کوریا سے مذکرات کے لیے مخلصانہ کوششوں کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے ایک ریل لائن کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے کہا، “ہمیں صورت حال پر بنیادی طورپر قابو پانے کے لیے مذاکرات کی امید نہیں چھوڑنی چاہئے، اگر دونوں کوریا مل کر کام کریں اور اعتماد قائم کریں تو ایک دن امن ضرورقائم ہوگا۔
مون جائے ان نے حال ہی میں کہا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان دشمنی کو کم کرنے کے لیے سن 1950-53 کی کوریائی جنگ کے خاتمے کا علامتی اعلان کیا جائے۔