پیانگ یانگ (جیوڈیسک) چین نے شمالی کوریا کی طرف سے تازہ ترین بیلسٹک میزائل تجربے کی مذمت کی ہے جب کہ اس سے قبل امریکہ اور جنوبی کوریا بھی پیانگ یانگ پر تنقید کر چکے ہیں۔
چین کی وزارت خارجہ نے ہفتہ کو ایک یبان میں کہا کہ یہ (میزائل ) داغنا سلامتی کونسل کی قراردادوں اور بین الاقوامی برادری کی مشترکہ خواہش کی خلاف ورزی ہے۔
امریکہ اور جنوبی کوریا کی فورسز نے شمالی کوریا کی طرف سے جمعہ کو داغے جانے والے بیلسٹک میزائل کے ردعمل میں جنوبی کوریا کی سمندری حدود میں میزائل فائر کیے۔
امریکی فوج کی طرف سے جاری ایک بیان کے مطابق اصلی گولہ بارود کی اس مشق میں فوج کے ‘ٹیکٹیکل میزائل سسٹم’ اور جنوبی کوریا کے ‘ہی انمو میزائل II’ کو استعمال کیا گیا۔ فوج کے مطابق ان ہتھیاروں کو بڑی تیزی کے ساتھ نصب کیا جا سکتا ہے اور یہ تمام موسمی حالات میں اپنے ہدف کو صحیح نشانہ بنانے کی صلاحیت کے حامل ہیں۔
وائٹ ہاؤس کی طرف سے جاری ایک بیان میں شمالی کوریا کی طرف سے میزائل داغے جانے کو” غیر محتاط اور خطرناک کارروائی ” قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ یہ اقدام اس ملک کو مزید تنہا کر دے گا۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ “ریاست ہائے متحدہ امریکہ وطن اور اپنے اتحادیوں کی حفاظت کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے گا۔”
امریکہ کے وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے کہا کہ شمالی کوریا کی طرف سے داغا جانے والا تازہ ترین میزائل ” اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کھلی خلاف ورزی ہے۔”
شمالی کوریا کی طرف سے بین البراعظمی بیلسٹک میزائل کا یہ تجربہ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران کیا جانے والا دوسرا تجربہ ہے۔ فائر کیے جانے والے اس تازہ ترین میزائل نے پیانگ یانگ کی طرف سے 4 جولائی کو داغے جانے والے میزائل کے مقابلے میں زیادہ بلندی پر پرواز کرتے ہوئے زیادہ فاصلے طے کیا۔
پینٹاگان کے ترجمان بحریہ کے کیپٹن جیف ڈیوس نے کہا کہ شمالی کوریا نے ملک کے شمال میں نصب ایک پلانٹ سے میزائل فائر کیا۔
واشنگٹن اور سیئول کے دفاعی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ یہ میزائل 40 سے 45 منٹ تک فضا میں رہا اور یہ ایک وقت میں تین ہزار کلومیٹر کی اونچائی تک بھی پہنچا اور اس کے بعد ایک ہزار کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد جاپان کے دوسرے بڑے جزیرے ہاکیڈو سے 160 کلومیٹر مغرب میں سمندری حدود میں گر گیا۔
جاپان کا کہنا ہے کہ یہ میزائل اس کی اقتصادی زون میں گرا اور جاپان کے وزیر اعظم شنزو ایبے نے شمالی کوریا کی طرف سے جمعہ کو داغے جانے والے میزائل کو اپنے ملک کے لیے ایک “سنگین اور حقیقی خطرہ قرار دیا۔”