شمالی کوریا (اصل میڈیا ڈیسک) شمالی کوریائی رہنما کم جونگ ان کے ساتھ کیا ہوا؟ چینی طبی وفد کے دورے کے بعد ان کی صحت اور ممکنہ ہلاکت کے بارے میں افواہوں کا بازار گرم ہے۔ چین اور شمالی کوریائی ذرائع ابلاغ نے ان اطلاعات پر مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
کِم جونگ اُن کیسے ہیں اور کہاں ہیں؟ دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر شمالی کوریائی رہنما کے بارے میں قیاس آرائیاں اور افواہیں گردش میں ہیں۔ مختلف ذرائع نے دعویٰ کیا کہ وہ دل کی سرجری کے بعد سے کوما میں ہیں۔ کچھ ذرائع نے تو ان کے ممکنہ جانشین کے بارے میں بھی خبریں جاری کر دیں۔
افواہوں کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب 21 اپریل کو این کے ڈیلی نامی ویب سائٹ نے اطلاع دی کہ کم جونگ ان 12 اپریل سے ہسپتال میں ہیں۔ این کے ڈیلی ویب سائٹ جنوبی کوریا سے چلائی جاتی ہے لیکن اس سے وابستہ افراد وہ لوگ ہیں جو شمالی کوریا سے بھاگ کر سیؤل میں آئے تھے۔
سی این این نے بھی اس کے بعد امریکی حکومتی اہلکار کے حوالے سے بتایا کہ شمالی کوریائی رہنما کی طبیعت بگڑ رہی ہے۔
ہفتہ 25 اپریل کو جاپانی میڈیا میں بھی ایسی ہی خبریں شائع کی گئیں جن میں دعویٰ کیا گیا کہ شمالی کوریائی رہنما کی سرجری ناکام ہو گئی تھی جس کے بعد سے وہ کوما میں ہیں۔
جنوبی کوریا کے خفیہ ادارے کے سابق سربراہ را جونگ ژیل نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اب تک سامنے آنے والی رپورٹس مستند نہیں ہیں۔ تاہم انہوں نے اس بات پر بھی حیرت کا اظہار کیا کہ سی این این کی خبر سامنے آنے کے کئی دنوں بعد بھی شمالی کوریا نے خاموشی کیوں اختیار کر رکھی ہے۔
نیو یارک ٹائمز نے ہانگ کانگ سیٹلائٹ ٹی وی کی ڈائریکٹر شی جیان ژنگ زو کے حوالے سے بتایا کہ کم جونگ ان کی موت واقع ہو چکی ہے۔ ژنگ زو نے دعویٰ کیا کہ ان کے پاس مصدقہ اطلاعات ہیں۔
فیس بک سے مماثلت رکھنے والی چینی ویب سائٹ ویبو پر شیجیان ژنگ زو کے پندرہ ملین سے زائد فالوور ہیں۔ ان کی رپورٹ چین میں وائرل ہوئی۔
چینی طبی وفد کے شمالی کوریا پہنچنے کے بعد ایسی افواہوں میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
سیؤل میں فریڈرش ناؤمان انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر کرسٹیان ٹاکس نے جرمن میڈیا کو بتایا کہ متنازعہ خبریں بہت زیادہ ہیں جن پر یقین کرنا مشکل ہے۔ تاہم ٹاکس کا یہ بھی کہنا تھا کہ گزشتہ ہفتے شمالی کوریا کے بانی اور کم جونگ ان کے دادا کی سالگرہ کی تقریب میں شرکت نہ کرنے کی کوئی نہ کوئی ٹھوس وجہ ضرور ہونا چاہیے تھی اور عدم شرکت کی وجہ سے بھی قیاس آرائیوں میں اضافہ ہوا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، جو اب تک کم از کم تین مرتبہ کِم جونگ اُن سے ملاقات کر چکے ہیں، ان کی تندرستی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کر چکے ہیں۔ تاہم صدر ٹرمپ ان کی ہلاکت سے متعلق افواہوں کو غلط قرار دیا تھا۔