واشنگٹن (جیوڈیسک) امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شمالی کوریا کی جانب سے کسی ممکنہ جارحیت کی صورت میں امریکہ کے جوابی اقدامات پر اپنے مشیروں کے ساتھ مشاورت کی ہے۔
وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری ایک بیان کے مطابق منگل کو ہونے والے اجلاس میں صدر ٹرمپ اور قومی سلامتی سے متعلق ان کی ٹیم کے ارکان نے شمالی کوریا کے مسئلے پر تبادلۂ خیال کیا۔
اجلاس میں شمالی کوریا کی جانب سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو جوہری حملے کی دھمکیاں روکنے اور کسی ممکنہ جارحیت کی صورت میں امریکہ کے ممکنہ جوابی اقدامات کا جائزہ لیا گیا۔
بیان کے مطابق اجلاس کے دوران امریکہ کے وزیرِ دفاع جم میٹس اور امریکی مسلح افواج کے سربراہ جنرل جوزف ڈنفرڈ نے صدر ٹرمپ کو امریکہ کی فوجی تیاریوں پر بریفنگ بھی دی۔
وائٹ ہاؤس میں یہ اجلاس ایسے وقت ہوا ہے جب امریکہ اور خطے میں اس کے اتحادیوں – جاپان اور جنوبی کوریا – نے شمالی کوریا کے نزدیک دو مختلف فضائی فوجی مشقیں کی ہیں۔
منگل کی شب کی جانے والی ان مشقوں میں تینوں ملکوں کے جنگی اور بمبار طیاروں نے فضائی حملوں اور زمین پر موجود اہداف کو فضا سے نشانہ بنانے کی صلاحیتوں کی مشق کی۔
یہ مشقیں بیک وقت جزیرہ نما کوریا کے شمالی اور مغربی ساحلوں میں بحیرۂ جاپان اور بحیرہ زرد میں کی گئیں۔
امریکی محکمۂ دفاع ‘پینٹاگون’ کے مطابق خطے میں امریکہ، جنوبی کوریا اور جاپانی افواج کے جنگی طیاروں کی رات کے اوقات میں کی جانے والی یہ پہلی مشترکہ فوجی مشقیں تھیں۔
دریں اثنا امریکی فوج کی پیسیفک کمانڈ نے اعلان کیا ہے کہ امریکی فوج کی جوہری صلاحیت سے لیس ایک آب دوز ‘یو ایس ایس ٹکسن’ جنوبی کوریا پہنچ گئی ہے۔
کمانڈ کے مطابق امریکی آب دوز جنوبی کوریا کی چن ہائے بندرگاہ پر لنگر انداز ہے اور اس کے جنوبی کوریا کے اس دورے سے “دونوں ممالک کے درمیان پہلے سے موجود قریبی دفاعی تعلقات مزید مضبوط ہوں گے۔”
امریکی فوج کا ایک طیارہ بردار جہاز ‘رونالڈ ریگن’ بھی جزیرہ نما کوریا کے جنوب مغرب میں واقع جاپان کے جزیرے اوکی ناوا کے نزدیک جاپانی فوج کے ایک جنگی جہاز کے ہمراہ فوجی مشقوں میں مصروف ہے۔
جاپانی فوج کی جانب سے بدھ کو جاری کیے جانے والے ایک بیان کے مطابق اس مشق کا آغاز ہفتے کو ہوا تھا جس کے دوران دونوں ملکوں کی بحری افواج دشمن پر سمندر سے حملے کی مشق کر رہی ہیں۔
خطے میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی فوجی سرگرمیوں میں اضافہ صدر ٹرمپ کے اس بیان کے بعد دیکھا جارہا ہے جس میں انہوں نے شمالی کوریا سے متعلق امریکہ کی گزشتہ 25 سال سے جاری پالیسی کو ناکام قرار دیا تھا۔
رواں ہفتے صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ شمالی کوریا نے ہمیشہ معاہدوں کی سیاہی خشک ہونے سے قبل ہی ان کی خلاف ورزیاں کی ہیں اور اس کے خلاف ان کے بقول “اب صرف ایک ہی چیز کام کرے گی۔”
صدر ٹرمپ اور ان کے کسی مشیر یا ترجمان نے اب تک اس بیان کی وضاحت نہیں کی ہے کہ اس “ایک چیز” سے ان کی کیا مراد تھی۔