پیانگ یانگ (جیوڈیسک) شمالی کوریا نے ایک بیلسٹک میزائل کا تجربہ کیا ہے جسے گزشتہ ماہ ہی امریکہ کا منصب صدارت سنبھالنے والے ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے لیے ایک چیلنج کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
پیانگ یانگ نے تو اس تجربے کے بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ بظاہر یہ درمیانے فاصلے تک مار کرنے والا ایک راکٹ تھا جو کہ جاپان میں اپنے ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت کا حامل ہو سکتا ہے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے یہ کہا جاسکے کہ یہ شمالی کوریا کا یہ تجربہ بین البراعظمی بیلسٹک میزائل کا تھا جو ممکنہ طور پر امریکہ تک مار کر سکتا ہے۔
جاپان کے وزیراعظم شنزو ایبے نے شمالی کوریا کے اس تازہ میزائل تجربے کو “ناقابل قبول” قرار دیتے ہوئے پیانگ یانگ پر زور دیا کہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کا احترام کرے۔
اس میزائل تجربے کی خبریں جس وقت سامنے آئیں اس وقت ایبے فلوریڈا میں امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ ایک اعشائیے میں شریک تھے۔
اعشائیے کے بعد ٹرمپ نے میزائل تجربے کی خبروں کے تناظر میں کہا کہ امریکہ “100 فیصد” اپنے اتحادی جاپان کے پیچھے کھڑا ہے۔
شمالی کوریا نے گزشتہ سال دو جوہری تجربات اور لگ بھگ دو درجن کے قریب راکٹ تجربات کیے تھے۔ اس کے راہنما کم جونگ اُن نے سال نو کی ایک تقریب میں اعلان کیا تھا کہ ان کا ملک بین البراعظمی بیلسٹک میزائل پروگرام کے “حتمی مرحلے تک پہنچ گیا ہے۔”
لیکن مغربی مبصرین کم کے اس دعوے پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا تھا۔
اُس وقت ٹرمپ نے کم کے اس دعوے پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ٹوئٹر پر کہا تھا کہ “ایسا نہیں ہوگا۔”