تحریر: سید توقیر زیدی پاک فوج نے فاٹا اور شمالی وزیرستان سے دہشت گردوں کا خاتمہ کرکے حکومت کی رٹ قائم کر دی ہے، جون 2014ء میں شروع کئے گئے آپریشن ضربِ عضب میں اب تک شمالی وزیرستان کا 4 ہزار 304 کلومیٹر کا علاقہ دہشت گردوں سے صاف کرایا جا چکا ہے۔ مشکل علاقوں میں انتہائی سخت موسم میں بھی آپریشن جاری رکھا گیا آپریشن نو ہزار فٹ کی بلندی والے علاقوں میں کئے گئے، دہشت گردوں کے بڑے ٹھکانے تباہ کر دیئے گئے ان ٹھکانوں سے بڑی تعداد میں اسلحہ اور بارود بھی برآمد کیا گیا۔ آئی ایس پی آر کے اعلان میں کہا گیا ہے کہ شوال آپریشن کا آخری مرحلہ رواں برس فروری میں شروع کیا گیا تھا اور علاقے سے شدت پسندوں کی اہم پناہ گاہیں ختم کر دی گئی ہیں۔ آپریشن کے آخری مراحل میں سیکیورٹی فورسز نے شوال کا 640 مربع کلومیٹر کا علاقہ شدت پسندوں سے کلیئر کروایاجبکہ پاک افغان سرحد کے قریب آخری گڑھ کو خالی کرانے کے لئے کوششیں جاری ہیں۔ شوال کی پہاڑی چوٹیاں برف سے ڈھکی ہوئی ہیں جہاں حد نگاہ بہت کم ہے ، لیکن اس کے باوجود پاک فوج کے جوانوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران 150 کلومیٹر ٹریک بھی تعمیر کیا، آپریشن کے آخری مرحلے میں 252 دہشت گرد ہلاک اور 160 شدید زخمی ہوئے، جبکہ گزشتہ دو ماہ میں پاک فوج کے 8جوان شہید اور 45 زخمی ہوئے۔ فیز ون اور ٹو میں شمالی وزیرستان کے 94 ترقیاتی منصوبے مکمل کئے جا چکے ہیں جبکہ شمالی وزیرستان میں 36 فیصد متاثرین ( 37012 خاندان) گھروں کو واپس جا چکے ہیں۔ فیز تھری کے 153 منصوبوں پر کام جاری ہے جسے جلد مکمل کر لیا جائے گا۔
پونے دو سال کے عرصے میں آپریشن ضرب عضب کامیابی سے ہمکنار ہو چکا ہے۔ افغانستان کے ساتھ ملنے والی سرحد کا کچھ علاقہ البتہ ایسا ہے جہاں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی جاری ہے اور یہ بھی خاتمے کے قریب ہے، اس کے بعد امید کی جا سکتی ہے کہ جو دہشت گرد اس علاقے میں روپوش ہو کر اپنی نئی کمین گاہیں بنانے میں کوشاں تھے وہ بھی تتربتر ہوجائیں گے۔ آپریشن ضرب عضب شروع ہونے سے پہلے اگر ملک بھر میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں کا بنظرِ غائر جائزہ لیا جائے تو یہ نتیجہ نکلے گا کہ یہ وارداتیں بہت زیادہ ہو رہی تھیں اور ان میں ایک نوع کا تسلسل تھا، دہشت گردی سے ملک کا کوئی حصہ محفوظ نہیں تھا اور بڑی بڑی وارداتیں بھی ہو رہی تھیں فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا جا رہا تھا، ہوائی اڈے بھی دہشت گردوں کا ہدف تھے، فوجی قافلوں کی راہ میں بارودی سرنگیں بچھائی جا رہی تھیں۔ فوج اور پولیس کے تربیتی مراکز کو بھی خودکش حملہ آوروں نے نشانہ بنایا، مساجد، ہسپتال، عوامی مقامات غرض کوئی جگہ ان سے محفوظ نہ تھی۔
Terrorist hideouts
آپریشن ضرب عضب کا آغاز ہوا تو دہشت گردوں کے ٹھکانے تباہ کئے جانے لگے ان کی تربیت گاہوں، کمین گاہوں اور اسلحے کے ڈپوؤں کو نشانہ بنایاگیا۔ بڑی تعداد میں دہشت گرد مارے گئے، ان میں سے بعض فرار ہونے میں کامیاب ہوئے تو انہوں نے افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقے میں نئی پناہ گاہیں بنانے کی کوشش کی گزشتہ سال ڈیڑھ سال میں پشاور اور قرب و جوار میں دہشت گردی کی جو وارداتیں ہوئیں وہ افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں نے کیں۔ سہولت کار ان کو لے کر جائے واردات تک پہنچے ٹیلی فونک رابطے کے لئے بھی افغان ٹیلی فون استعمال ہوئے اس وقت بھی بھتہ طلب کرنے کے لئے افغانستان سے پاکستانی شہریوں کو کالیں آتی ہیں، جس کی وجہ سے یہ درست فیصلہ کیا گیا ہے کہ پاکستان کے علاقے میں مواصلات کے وہ تمام ٹاور گرا دیئے جائیں گے جو موبائل فون کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ افغانستان کے اندر جو ٹاور سرحدی علاقے کے ساتھ لگے ہوئے ہیں ان کے متعلق افغان حکام سے بات کی جائے گی۔ افغان صدر اشرف غنی ہمیشہ دہشت گردی کے خاتمے کی بات تو کرتے ہیں لیکن عملی تعاون میں سست روی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے توقع ہے پاکستانی وفد اس سلسلے میں جلد افغانستان کا دورہ کرے گا اور افغان حکام سے بات کرے گا۔
آپریشن ضربِ عضب کے بعد شمالی وزیرستان کا تمام علاقہ کلیئر ہو چکا ہے اور 36 فیصد متاثرہ افراد بھی اپنے گھروں کو واپس جا چکے ہیں افغان سرحد سے ملحقہ جو تھوڑا سا علاقہ ابھی کلیئر کیا جا رہا ہے اس سے بعد یہ تمام علاقہ جرائم پیشہ عناصر سے پاک ہو جائے گا تو سول انتظامیہ کی ذمہ داریاں بڑھ جائیں گی، ان علاقوں میں سول انتظامیہ کو اپنے فرائض سنبھال کر سیکیورٹی اداروں کو ان اضافی ذمے داریوں سے سبکدوش کرنا ہوگا جو سول انتظامیہ کی ناکامی کی وجہ سے فوج کو اپنے ذمے لینا پڑی تھیں۔ آپریشن سے متاثرہ افراد کی بحالی بھی حکومت کا کام ہے اور متعلقہ حکومتی عہدیداروں کو جلد از جلد یہ ذمے داری بھی سنبھال لینی چاہیے۔ متاثرین کی بحالی کے لئے جو ترقیاتی منصوبے شروع کرنے کی ضرورت ہے ،ان کا آغاز بھی جلد ہو جانا چاہیے۔
Education in tribal areas
قبائلی علاقوں میں تعلیم اور روزگار کے مواقع بھی محدود ہیں اور ان کی توسیع کی راہ میں بعض اوقات قبائلی روایات بھی حائل ہو جاتی ہیں، ان قبائل نے آپریشن کے دوران سیکیورٹی اداروں سے بھرپور تعاون کیا ہے جس کی وجہ سے بہت سے قبائلی ملکوں کو اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھونا پڑے ہیں۔ اب قبائلی عوام نے نئے سرے سے اپنے کاروبار حیات کا آغاز کرنا ہے تو انہیں قدم قدم پر حکومت کے تعاون کی ضرورت ہوگی۔ قبائلی عوام کی ان ضروریات کو پورا کرنے کے لئے حکومت کو باقاعدہ منصوبہ بندی سے آگے بڑھنا ہوگا سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہوگی کہ دہشت گردوں کو دوبارہ ان علاقوں کا رخ کرنے کی جرات نہ ہو اور نہ وہ یہاں پھر سے قدم جما سکیں۔
دہشت گردوں نے یہاں اپنا جس قسم کا نیٹ ورک قائم کر رکھا ہے اسے ختم کرنے میں اگر فوج کو پونے دو برس لگ گئے ہیں تو تصور کیا جا سکتا ہے کہ یہ سلسلہ کتنے عرصے سے جاری ہوگا۔ اس لئے ان علاقوں کی سول انتظامیہ کو زیادہ ہوشیار اور خبردار رہنا ہوگا اور گردوپیش پر گہری نگاہ رکھنی پڑے گی، تاکہ دہشت گرد دوبارہ ادھر کا رخ نہ کر سکیں، فوجی قیادت کو اس کامیاب آپریشن کی تکمیل پر مبارکبادکے ساتھ ساتھ ان شہدا کی قربانیوں کو بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے جنہوں نے وطن کی سربلندی اور حْرمت کے لئے اپنی جانیں نچھاور کر دیں۔اللہ تعالیٰ ان شہدا کے درجات بلند کرے۔