ناروے (اصل میڈیا ڈیسک) ناروے کے حکام کا کہنا ہے کہ تیر کمان سے حملہ کرنے کا واقعہ، جس میں پانچ افراد ہلاک ہوگئے تھے، ممکنہ طورپر دہشت گردی کی کارروائی ہو سکتی ہے۔ حکام نے تاہم ملزم کے ذہنی مریض ہونے کا بھی شبہ بھی ظاہر کیا ہے۔
ناروے کی سکیورٹی سروسز نے جمعرات کے روز کہا کہ 37 سالہ حملہ آور ڈنمارک کا شہری ہے اور اس نے اسلام قبول کیا تھا اور وہ غالباً شدت پسندی کی طرف مائل تھا۔
حکام کا کہنا ہے کہ بدھ کے روز کانگز برگ قصبے میں تیر اور کمان سے کیے جانے والے حملے میں پانچ افراد ہلاک ہوگئے تھے اور یہ حملہ بظاہر”دہشت گردی کی کارروائی” معلوم پڑتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس حملے میں 50 سے 70 برس کے درمیان عمر کا ایک مرد اور چار خواتین ہلاک ہوگئیں جب کہ تین دیگر افراد زخمی ہوئے، جن میں ایک پولیس افسر شامل ہیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم سے رات بھر پوچھ گچھ کی گئی۔ اس نے حکام کے ساتھ تعاون کیا اور اپنے جرم کا اعتراف کر لیا ہے۔ آج جمعے کے روز اسے ایک عدالت میں پیش کیا جائے گا، جہاں پولیس اس سے مزید پوچھ گچھ کے لیے اپنی تحویل میں لینے کی درخواست کرے گی۔
ناروے کی انٹلی جنس سروس (پی ایس ٹی) کے سربراہ ہانس سیورے جوولڈ نے ایک پریس کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے کہا،”اس میں شبہ نہیں کہ جو واقعات ہمارے سامنے ہیں ان کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ دہشت گردی کی کارروائی ہو سکتی ہے، تاہم اہم بات یہ ہے کہ تفتیش جاری رہنی چاہئے تاکہ ہم یہ معلوم کرسکیں کہ اس حرکت کے پیچھے ملزم کا اصل مقصد کیا تھا۔”
حکام نے حملہ آور کے ذہنی مریض ہونے کے امکان کو مسترد نہیں کیا۔ جوولڈ کا کہنا تھا،”اس شخص کا کچھ عرصے سے وقفے وقفے سے علا ج چل رہا تھا۔
ایک ماہر نفسیات سیوان ماتھیازین نے بتایا کہ ملزم کا نفسیاتی تجزیہ شروع کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہمیں کسی نتیجے پر پہنچنے میں ”کئی مہینے لگ سکتے ہیں۔”
ایک وکیل نے قبل ازیں کہا تھا کہ ناروے کے محکمہ صحت کے حکام کو اس شخص کے بارے میں پہلے سے معلومات تھیں۔
پولیس سربراہ اولے بریڈپ سئیورد کا کہنا تھا کہ ہمیں ابتداء میں یہ خدشہ تھا کہ یہ شخص غالبا ً انتہا پسندی کی جانب مائل تھا۔ انہوں نے تاہم کہا،”ہمیں سن 2021 میں اس کے بارے میں کوئی رپورٹ نہیں ملی تھی۔ پولیس مکمل طور مطمئن ہونے کے لیے تفتیش جاری رکھے گی۔”
ناروے کی میڈیا رپورٹوں کے مطابق ملزم کے خلاف ماضی میں بھی دو مقدمات دائر ہوچکے ہیں۔ ان میں سے ایک کا تعلق اس کے اپنے خاندان کے ایک فرد کو قتل کی دھمکی دینے سے اور دوسرے کا سن 2012 میں چوری اور منشیات خریدنے سے ہے۔
مقامی میڈیا نے ملزم کے ایک پرانے ویڈیو کا بھی پتہ لگایا ہے جسے مبینہ طورپر انہوں نے سن 2017 میں سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا تھا۔ اس میں وہ ‘وارننگ‘ دیتے ہوئے اور اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
تقریباً25 ہزار آبادی والاکانگزبرگ ایک خوبصورت اور پرسکون قصبہ ہے۔ یہ اوسلو سے تقریباً 80 کلومیٹر دور واقع ہے۔ ایک مقامی رہائشی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا،”ملزم فوجی کٹ کے بال رکھتا ہے اور ہر وقت سنجیدہ نظر آتا تھا۔ وہ ہمیشہ اکیلا ہی دکھائی دیتا تھا۔ اس کے چہرے پر کبھی مسکراہٹ نہیں دیکھی، وہ ہر وقت کسی نادیدہ شئے کو گھورتا رہتا تھا۔”
ناروے کی وزیرِ اعظم ایرنا سولبرگ نے کہا کہ گانگزبرگ سے آنے والی خبریں ‘خوف ناک‘ ہیں۔ ان کے بقول بہت سے لوگ اس واقعے سے خوف زدہ ہیں، مگر اس بات کا ادراک بھی ضروری ہے کہ اب پولیس نے کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ نامزد وزیر اعظم جوناس اسٹوئرے نے اسے ”بے رحم اور وحشیانہ حرکت“ قرار دیا۔
ناروے میں حملے کا یہ واقعہ کوئی ایک دہائی بعد پہلی مرتبہ پیش آیا ہے۔ اس سے قبل جولائی 2011 میں دائیں بازو کے ایک انتہا پسند آندریس بریویک نے اوسلو میں ایک یوتھ کیمپ پر بم حملہ کیا تھا۔ اس حملے میں 77 افراد مارے گئے تھے جن میں بیشتر نوجوان تھے۔ اس حملے کو ناروے کی تاریخ میں دہشت گردی کا بدترین واقعہ قرار دیا جاتا ہے۔
کانگز برگ واقعے کے بعد پولیس افسران کو اپنا اسلحہ رکھنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ ناروے کی پولیس عموماً غیر مسلح ہوتی ہے مگر افسران ضرورت کے تحت بندوق اور رائفلیں ساتھ رکھ سکتے ہیں۔