ناروے (اصل میڈیا ڈیسک) ناروے کی سیکیورٹی ایجنسی ایک شیعہ مبلغ اور اہل تشیع ملک کے ایک مرکز کے سربراہ کو ناقابل قبول شخص قرار دیتےہوئے انہیں ملک بدر کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ناروے کے سیکیورٹی حاکم نے وزارت انصاف کو تحریری طور پر ایرانی مبلغ جس کی شناخت ظاہرنہیںکی گئی کے بارے میںکہا ہے کہ اسے ملک در کیا جائے کیونکہ وہ اوسلو میں قائم ایک مرکز کا سربراہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایران کی حمایت کر رہا ہے۔
سلامتی سے متعلق ادارے کے بیان میں ایرانی مبلغ کا نام ظاہر نہیں کیا گیا لیکن پراگ میں فارسی نشریات پیش کرنے والےریڈیو ‘فردا’ نے کہا ہے کہ مذکورہ شخصیت یہ مصطفی مطہری ہیں
نارویجن نیوز ایجنسی کے مطابق ایرانی عالم کو ملک بدر کرنے کے لیے ناروے کی سیکیورٹی ایجنسی کی درخواست ایرانی وزارت انٹلی جنس کے ساتھ اس کے تعاون کی اطلاعات کے بعد سامنے آئی ہے۔
ایجنسی نے اپنی رپورٹ میں ایرانی مبلغ کے نام کا ذکر نہیں کیا اور اس کے چہرے کی تصاویر بھی واضح نہیں کی گئی لیکن اس کی سیاہ پگڑی تصویروں میں نظر آتی ہے۔تاہم ، ریڈیو فردا کی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ شخص ناروے میں امام علی سنٹر کا سربراہ مصطفی مطہری ہے۔
ایجنسی کے مطابق مذکورہ عالم دین پر ایرانی وزارت انٹلیجنس کے ساتھ تعاون کرنے کا الزام ہے اور اس کے تعلقات ایک ایرانی-نارویجن شخص سے ہیں جس کو پہلے ڈنمارک میں ایرانی حکومت کے مخالف اہواز کارکنوں کے قتل کی سازش کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
رواں سال جولائی میں ڈنمارک کی ایک عدالت نے ایک ایرانی نارویجی شہری کو ڈنمارک کی سرزمین پر قاتلانہ حملےاور جاسوسی میں ملوث ہونے کا مجرم قرار دیا۔
عدالت کے مطابق 40 سالہ شخص نے ڈنمارک میں مقیم ایک ایرانی مہاجر کے بارے میں معلومات اکھٹی کیں ، اور یہ معلومات ایرانی انٹیلی جنس خدمات میں کام کرنے والے شخص کو فراہم کیں۔
ایرانی عالم دین کے وکیل ، جاوید حسین شاہ نے ناروے کی نیوز ایجنسی کو بتایا کہ ان کا مؤکل انھیں ملک بدر کرنے کی وجوہات سے اتفاق نہیں کرتا ہے۔
نارویجن حکومت کی سیکیورٹی کے ڈائریکٹر ہان بلومبرگ نے خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ وہ ان اطلاعات کی تصدیق یا تردید نہیں کرنا چاہتیں کہ ایرانی مبلغ کی ملک بدری ایرانی وزارت انٹلیجنس کے ساتھ تعاون کی وجہ سے ہوئی ہے لیکن اس بات کا اشارہ کیا کہ ایرانی حکومت سیکیورٹی اور انٹیلیجنس مقاصد کے لیے مذہبی مراکز اور مساجد کو استعمال کرتی ہے۔