تحریر: سید سبطین شاہ ناروے دنیا ایک ایسا ملک ہے جو اگرچہ جغرافیائی اعتبار سے پاکستان سے بہت دو رہے لیکن اس ملک میں رہنے والے پاکستانی جنہیں نارویجن پاکستانی بھی کہا جاتا ہے، روحانی اعتبار سے پاکستان کے بہت قریب ہیں بلکہ یوں کہا جائے تو بجا ہو گا کہ ان کا جسم ناروے میں اورروح پاکستان میں ہے۔
یہ لوگ ستر کی دہائی میں معاش کی تلاش میں پاکستان سے آکر یہاں آبادہوئے۔اب ان کی ناروے میں آبادی چالیس ہزار کے قریب پہنچ چکی ہے۔ ان لوگوں نے خوب محنت کی اور خوب نا م کمایا۔ناروے کی سیاست سے لے کرمعیشت تک بہت سے معاملات میں یہ پاکستانی اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔
تمام ترمسائل اورمشکلات کے باجود یہ لوگ پاکستان کو نہیں بھولے۔یہاں پاکستان کے قومی ایام باقاعدگی کے ساتھ منائے جاتے ہیں۔ سترکی دہائی سے ہی یہ لوگ پاکستان کے تہوارمناتے چلے آرہے ہیں۔ خاص طورپر جشن آزادی پاکستان کوتو بڑے جوش وخروش سے منایاجاتاہے۔ ہرسال پاکستان سے سیاسی زعماء، سماجی رہنماء اورعلمی، ادبی اورثقافتی شخصیات ناروے بلائی جاتی ہیں اوران کی خوب مہمان نوازی کی جاتی ہے۔پچھلے سالوں کی طرح اس سال بھی جشن آزادی پاکستان کے حوالے سے پروگراموں کے انعقا د کاسلسلہ شروع ہوچکاہے۔ ان پروگراموں کو مختلف تنظیمیں منعقد کرتی ہیں اور ان تنظیموں کے رہنماء اپنی مرضی کی شخصیات کو ناروے بلاتی ہیں۔
Pakistan Independence Day in Norway
کچھ تنظیموں کی کوشش ہوتی ہے کہ ایسے لوگوں کو ناروے بلایاجائے جن سے لوگ کچھ حاصل کرسکیں اور کچھ تو پاکستان میں اپنا اثرو رسوخ قائم کرنے کے لیے سیاسی شخصیات کو بلاتے ہیں کیونکہ پاکستان ایک ایساملک بن گیاہے جہاں مسائل ہی مسائل ہیں اور کوئی بھی مسئلہ رشوت اورسفارش کے بغیرحل کرنامحال نظرآتاہے۔ ان تنظیموں میں پاکستان یونین ناروے، پاکستان ورکرزویلفیئریونین، چودہ اگست کمیٹی، پاکستان کمیونٹی ناروے وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔
اس بار جشن آزادی پاکستان کے موقع پرپاکستان یونین ناروے نے پاکستان کی ایک علمی شخصیت کو مدعو کیاہے جن کا پاک فوج کی سب سے بڑی درسگاہ میں ریسرچ اورمطالعات حاضرہ کے شعبہ جات قائم کرنے میں اہم کردارہے جس کامقصد پاکستان میں بین الاقوامی تعلقات کے شعبے سے اعلیٰ پائے سکالرزتیارکرکے اقوام عالم میں پاکستان کا نام روشن کرناہے۔ان کی خدمات پر انہیں صدرپاکستان سے تمغہ امتیازبھی مل چکاہے اور پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کاکمیشن بھی انہیں بہترین استاد کا ایوارڈ بھی دے چکاہے۔پاکستان یونین ناروے نے سماء ٹی وی کی معروف خاتون اینکرپرسن پارس جہانزیب کواپنے پروگرام میں شرکت کے لیے بلایا ہے۔
یہ تقریب سولہ اگست کو جس کے دوران علمی وادبی اورسماجی شخصیات کی تقاریراورنمایاں کارکردگی پر بعض شخصیات کو ایوارڈز دینے کے علاوہ ثقافتی پروگرام بھی ہوگا۔ایک اورتنظیم چودہ اگست کمیٹی نے اس بار پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹوزرداری کو اپنے پروگرام میں مدعوکیاہے۔ ان کے ساتھ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی بھی ناروے آرہے ہیں۔ سابق وزیراور پی پی پی کے سیکرٹری اطلاعات قمرالزمان کائرہ جن کاکچھ نارویجن پاکستانیوں میں گہرااثرورسوخ ہے، پہلے ہی ناروے پہنچ چکے ہیں۔ناروے میں کچھ نوجوان اس بارپر معترض ہیں کہ پاکستان سے بدعنوان سیاستدانوں کو نہ بلایاجائے۔ اس مہم کے محرک نے ایک آن لائن ٹی وی پروگرام میں تو یہ تک کہہ دیاکہ پاکستان سے کوئی بھی نہ آئے ۔ اگرکسی نے ان لوگوں کو سننا ہے تو یوٹیوب پر ان کی تقاریرسن لے، جس کے جواب میں یہ کہاگیاکہ اگرچہ کرپٹ سیاستدانوں کا ناروے آناکوئی اچھاشگون نہیں لیکن یہ بات بالکل غلط ہے کہ پاکستان سے کوئی نہ آئے۔وفود کاتبادلہ اقوام کے مابین تعلقات کی تحکیم کا باعث ہے۔
PPP
بہرحال نوجوان کا اعتراض اپنی جگہ ہے لیکن یہ ضرورہے کہ بلاول بھٹو کی ناروے آمد کی خبرنے ناروے میں پی پی پی کو ضرور متحرک کردیاہے۔ راقم نے جب پی پی پی ناروے کے بزرگ رہنماء میاں اسلام سے اس صورتحال پر بات کی تو انھوں نے کہاکہ اس وقت پی پی پی ناروے کے اندربھی دوڑ لگی ہوئی ہے کہ کون کتنازیادہ بلاول کی مہمانوازی کرے گا؟ پاکستان ورکرزویلفیئریونین نے ہائی کورٹ کے ایک جج کو اپنے پروگرام میں مدعوکیاہے۔ ان کے علاوہ ایک تنظیم نے تواپنے علاقے کے ایم پی اے کو مہمان خصوصی کے طورپر بلایاہواہے۔غرضیکہ اوسلومیں ہرطرف گہماگیمی ہے۔ جشن آزادی پاکستان کی سرکاری تقریب تو چودہ اگست کو سفارتخانے میں ہوگی جس کے دوران سفیرپاکستان محترمہ رفعت مسعود پرچم کشائی کریں گی۔
اگرچہ جشن آزادی پاکستان کے حوالے سے اوسلومیں بڑی دلچسپ صورتحال ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ناروے میں دیگرسرگرمیاں بھی جاری ہیں جیساکہ اسی دوران ایک پاکستانی ڈاکٹرسید ذوالفقارحیدر اور ان کی اہلیہ اپنے دوست واحباب سے مل کر عبدالستارایدھی کی یاد میں ایک پروگرام کروائے رہے ہیں۔ ان کامقصدپاکستان کے اس پہلوکو ابھارناہے جس کا تعلق انسانیت سے ہے۔ان کے علاوہ موضوع کشمیربھی نارویجن پاکستانیوں کی سرگرمیوں میں شامل ہے۔ ناروے کے پاکستانیوں میں کشمیرکے حوالے سے بھی کافی ہمدردی پائی جاتی ہے۔ خاص طورپران لوگوں نے کشمیریوں کے دردکوہمیشہ محسوس کیاہے۔خاص طورپر مقبوضہ کشمیرمیں بڑھتے ہوئے حالیہ ریاستی تشددکے خلاف اوسلومیں اضطراب پایاجاتاہے۔جس کا ثبوت چند دن قبل اوسلومیں منعقد ہونے والے ایک مظاہرے سے دیا جا سکتا ہے۔
اس بار بھی جب راقم چنددن قبل ناروے پہنچاتو نارویجن پارلیمنٹ کے سامنے کشمیریوں کی حمایت میں اس مظاہرے کا مشاہدہ کیا۔ مظاہرے کے روح رواں کشمیرسکینڈے نیوین کونسل کے سربراہ سردار علی شاہنوازخان اوران کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کشمیری رہنماء چوہدری مختاراحمد اگلی صفوں میں تھے۔اسی دوران جب کشمیریورپین الائنس کے صدرسردارپرویزمحمودسے بات ہوئی تو انھوں نے بتایاکہ یہ مظاہرہ ناروے میں مقیم پاکستانیوں اور کشمیریوں کی مشترکہ آوازہے اور ہم اسی طرح یہ آوازبلند کرتے رہیں گے۔واقعاً اس مظاہرے کو کامیاب بنانے کے لیے نارویجن پاکستانیوں کی بھرپورنمائندگی تھی یعنی مختلف تنظیموں سے تعلق رکھنے والی چیدہ چیدہ شخصیات موجودتھیں۔یہ بات عیاں ہے کہ ناروے میں رہنے والے پاکستانی مختلف حوالوں سے ہمیشہ متحرک رہتے ہیں۔ اگرچہ وہ ناروے میں چالیس سالوں سے مقیم ہیں لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ ان کے دل اب بھی پاکستان میں بستے ہیں ۔ پاکستان ان کی جڑ ہے جسے وہ ہرگز نہیں چھوڑ سکتے۔