تحریر : محمد عرفان چودھری اس کالم کے حصہ اول میں بات کی تھی اُن نوسر بازوں کی جو کہ مختلف حیلے بہانوں سے لوگوں کے ساتھ فراڈ کرتے ہیں اور وہ نوسر باز ہم عوام میں سے ہی ہوتے ہیں جن کا تدارک کرنے کے لئے حکومت کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے مگر اگر بات حکومت کے متعلق کی جائے تو وہ اِن نوسر بازوں سے دو ہاتھ آگے ہے جن کی بہت سی مثالیں ہیں جن میں سے چند ایک حکومتی اداروں کی نوسر بازیاں قابل ذکر ہیں سب سے پہلے تو بات کرتے ہیں واپڈا کی جو کہ پاکستان کے کونے کونے میں بجلی پہنچانے کا ٹھیکیدار ہے جن کی نوسر بازیاں سب سے زیادہ مشہور ہیں مثلاََ میٹر ریڈر کی جانب سے غلط ریڈنگ لینا، کسی کے بل کی فوٹو کسی اور کے بل پر لگانا، بل کے اُوپر میٹر ریڈنگ ڈیٹ 2 لکھنا جبکہ حقیقت میں 12 تاریخ کو ریڈنگ لینا، آج کل تو ناقص ڈیجیٹل میٹر لگائے جا رہے ہیں جو کہ چند ماہ بعد ہی خراب ہو جاتے ہیں جس کی شکائت درج کروانے کے باوجود معمول کے بل ڈالنے کی بجائے بیس سے تیس ہزار روپے ماہانہ بل ڈال دیا جاتا ہے جو کہ صارف کے ساتھ سراسر نا انصافی ہے اس کے ساتھ ساتھ سب سے بڑی کرپشن یہ ہے کہ بجلی چوروں کے خلاف کارروائی کرنے کی بجائے جو لائن لاسز ہوتے ہیں وہ ماہانہ بنیادوں پر اُن شریف لوگوں کے بلوں میں ڈال دیے جاتے ہیں جو کہ باقاعدگی سے اپنا بل ادا کرتے ہیں اور بجلی چوری جیسے گھنائونے کام میں شامل نہیں ہوتے۔
اب بات کرتے ہیں سوئی گیس محکمے کی جو کہ آدھا تیتر آدھا بٹیر کے مصداق پرائیویٹ سے پبلک ہوئی اُس میں بھی حد درجے کی نوسر بازیاں ہوتی ہیں نیا کنکشن لگوانا ہو تو نارمل فیس 6000 روپے اور کنکشن لگنے کا وقت معلوم نہیں اور اگر 25000 روپے ارجنٹ فیس کی مد میں جمع کروائیں تو تقریباََ تین ماہ میں کنکشن لگ جاتا ہے کیوں؟ کیا یہ اندھیر نگری صرف غریبوں کے لئے ہے؟ اس سے بڑھ کر قارئین کرام ایک انوکھا تجربہ ضرور کریں کہ اپنے گیس میٹر سے گیس سپلائی والو بند کر دیں پورے ایک مہینے کے لئے اور پھر مہینے بعد اپنا بل دیکھئے گا اگر ہوش نہ اُڑ جائیں تو کہنا کہ پورا مہینہ گیس استعمال بھی نہیں کی والو بھی بند ہے میٹر ریڈر 0000 ریڈنگ لے کر گیا ہے پھر بھی بل معمول سے چار گُناہ زیادہ آئے گا (یہ تجربہ اپنی صوابدید پہ کریں کالم نگار کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے)، تیسری حکومتی نوسر باز کمپنی نادرا ہے جس میں صبح سے لے کر شام تک لوگ لائن میں کھڑے رہتے ہیں جن کی داد رسی کے لئے سُست ترین عملہ بٹھایا ہوتا ہے جو کہ غریب لوگوں کو سارا دن دُھتکارتا رہتا ہے جبکہ دوسری جانب نادرا کی ایگزیکٹو برانچوں میں 1500 روپے کے عوض آسانی سے شناختی کارڈ بنوا لئیے جاتے ہیں۔
کیا نادرا کی اس صف میں محمود و ایاز بناء زیادہ پیسے دیے اکھٹے کھڑے نہیں ہو سکتے کیا ہر علاقے میں نادرا کی فرنچائز نہیں کھولی جا سکتیں تا کہ ملازمین اور صارفین کو بھی آسانیاں ملیں؟ ان تمام نوسرباز اداروں میں اک نام پی ٹی اے کا بھی ہے جو کہ سیلولر کمپنیوں سے ٹیکس کی مد میں بھُتہ وصول کرتا ہے اس کو بھُتہ اس لئے کہوں گا کہ یہ بھُتہ عوام کو دینا پڑتا ہے ایک سو روپے کے کارڈ کے پیچھے تقریباََ پچیس روپے کٹوتی کر لی جاتی ہے جس کا کوئی جواز نہیں بنتا اس کے علاوہ کال پیکج ہونے کے باوجود ہر کال پر چارجز وصول کئے جاتے ہیں یعنی کہ پوری رقم بمعہ ٹیکس ادا کرنے کے بعد بھی اُس کو استعمال کرنے کے لئے جگا ٹیکس لاگو ہوتا ہے ۔ چوتھا نوسر باز ادارہ محکمہ صحت ہے جس نے لُوٹ کھسُوٹ کا بازار گرم کیا ہواہے ہسپتال مریضوں سے کھچا کھچ بھرے ہوئے ہیں ایک بسترے پر تین تین چار چار مریضوں کو لٹایا جا رہا ہے۔
Corruption
مریض کو لے جانے کے لئے سٹریچر نا پید ہیں، ٹیسٹ مشینیں بالکل فیل ہو چکی ہیں مگر اُن کی مرمت کی طرف دھیان نہیں دیا جا رہا حال ہی میں میو ہسپتال سے جعلی سٹنٹ کی بڑی کھیپ پکڑی گئی ہے جس کی اصل قیمت چھ ہزار روپے بنتی ہے مگر لوگوں کو دو لاکھ روپے کے عوض بیچی جا رہی تھی صحت کے متعلق تو بے تحاشا مسائل ہیں اگر گنوانا شروع کر دیے تو نیا کالم لکھنا پڑ جائے گا اس لئے یہی پر اس کو ختم کرتے ہوئے بات کرتے ہیں اگلے نوسر باز ادارے کی جو کہ نیب کہلاتا ہے اور جس کے آج کل پُلی بارگین کے چرچے زبان زدِعام ہیں آپ کی آسانی کے لئے یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ یہ پُلی بارگین آخر ہے کیا؟ اس کا جواب آپ کو اس مثال سے واضح ہو جائے گا کہ ” بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی” جی با لکل اس مثال کے مطابق آپ پچاس کروڑ کی کرپشن کرو اور پھر سرکار سے مُک مُکا کر کے دس کروڑ واپس کر دو اور چالیس کروڑ اپنے کھاتے میں ڈال کر با شریف شہری سی کی زندگی بسر کرنا شروع کر دو اور حکومت تشکر منائے کے لنگوٹی تو ہاتھ میں آ گئی ، اس وقت مُلک میں سب سے بڑی نوسر بازی سٹیٹ بینک پرائز بانڈ کی مد میں کر رہا ہے آپ کا اگر کبھی سٹیٹ بینک جانے کا اتفاق ہوا ہو تو اپ نے دیکھا ہوگا کہ خستہ ہال لباس بکھرے بال چہرے پر وقت کے پڑے ٹھپیروں کی جُھریاں جن کو دیکھ کر بندے کو ایک بار اپنے اندر جھرجھری سی ہوتی محسوس ہوتی ہو مگر اُن کے ہاتھوں میں نوٹوں اور پرائز بانڈز کی دفتریاں بندہ ششدر سا ہو جاتا ہے کہ یہ کیا ماجرا ء ہے قارئین کرام پرائز بانڈ جو کہ ایک انعامی سکیم ہے اُس کے تحت آپ اپنے کرنسی نوٹ بینک میں جمع کروا کر اُس کے بدلے کاغذ خرید لیتے ہیں (حقیقت میں تو کرنسی نوٹ بھی کاغذ ہی ہوتے ہیں) جن کو پرائز بانڈ کا نام دیا گیا ہے اور یوں آپ اپنی جمع پونجی جمع کروا کر انعام نکلنے کی لالچ میں کاغذ کو تادم مرگ سنبھال کر رکھتے ہیں مگر آپ میں سے شائد ہی کوئی شخص ہوگاجو کہ اس انعامی رقم سے مستفید ہوا ہوگا اصل میں جیسا کہ شروع میں بتایا گیاوہ خستہ ہال لوگ ڈیہاری دار ہوتے ہیں جو کہ بڑے بڑے پرائز بانڈ ڈیلر وں کے پاس بینک کی لائن میں لگ کر کالا دھن سفید کروانے والوں کے طور پر کا م کرتے ہیں کہ جن کے بڑے انعام نکلتے ہیں۔
اُن کو خریدنے اور بیچنے کے ساتھ ہی اپنی حرام کی کمائی پر بینک کی حلال مہر لگوا کر بآسانی کالا دھن سفید کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں یہ روز کا معمول ہوتا ہے اور اس میں بینک کا عملہ کُلی یا جزوی طور پر شامل ہوتا ہے اس کے علاوہ سٹیٹ بینک کے باہر ہی نئے نوٹوں اور پرائز بانڈزکا کاروبار بڑی ڈھٹائی کے ساتھ جاری ہے جس کی بدولت کئی لوگ اپنی اصل رقم کے عوض جعلی نوٹ اور پرائز بانڈ خرید چکے ہیں جس کے لئے حکومت کو چاہیئے کہ اس پر فوراََ ایکشن لیتے ہوئے کھُلے عام کرنسی نوٹوں اور پرائز بانڈز کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کرنے کے ساتھ ساتھ پرائز بانڈز ڈیلرز کے لئے بانڈز خریدنے کی ایک حد مقرر کر دی جائے تا کہ عوام کا سرمایا محفوظ رہے ۔ قارئین کرام اس طرح کی ہزاروں نوسربازیاں ہیں اگر لکھنا شروع کر دیں تو پوری کتاب بن جائے گی اس لئے بات کو یہی ختم کرتے ہیں اور اُمید کرتے ہیں کہ آپ کسی بھی نو سر باز کے ہتھے چڑھنے سے پہلے کئی بار سوچیں گے تجربہ کار لوگوں سے مشورہ لیں گے پھر کوئی قدم اُٹھائیں گے اور اس سلسلے میں حکومت سے کوئی اپیل نہیں کروں گا کیونکہ یہ سب نوسربازیاں اُنہیں کی ناک کے نیچے ہو رہی ہیں اور اُن کو منظر عام پر لانے کے لئے حصّہ سّوم لکھنا پڑے گا۔
Muhammad Irfan Choudhary
تحریر : محمد عرفان چودھری ڈپٹی سیکریٹری کو آرڈینیشن پاکستان فیڈرل یُونین آف کالمسٹ +92-313-4071088