سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ انسانی ناک میں پائے جانے والے ان بیکٹیریاز کے تجزیے سے اینٹی بايوٹک ادویات کی ایک نئی قسم دریافت کی گئی ہے جو آپس میں برسرِپیکار رہتے ہیں۔ سائنسی رسالے ’نیچر‘ میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق اس کے نتیجے میں ’لگڈن‘ نامی جو دوا تیار ہوگی اس سے ’سپر بگ‘ انفکیشنز کا علاج ممکن ہو سکے گا۔
آخری مرتبہ مریضوں کو فراہمی کے مرحلے تک پہنچنے والی اس طرح کی نئی قسم کی کوئی دوا 1980 کی دہائی میں ہی دریافت ہوئی تھی۔ اس طرح کی کوئی بھی نئی دو اس سے قبل سنہ 1980 میں مریضوں تک پہنچی تھی اس کے بعد سے اس زمرے میں کوئی دوا تیار نہیں ہوئي۔
اس سے قبل تقریباً تمام طرح کی اینٹی بایوٹک دواؤں کی دریافت مٹي میں پائے جانے والے بیکٹریا سے ہوئی تھی لیکن جرمنی میں یونیورسٹی آف ٹوبینجن کی ٹیم نے اس کے لیے انسانی جسم کا ہی تجزیہ شروع کیا ہے۔ جرمن محقیقین کا کہنا ہے کہ انسانی جسم نئی دواؤں کی تیاری کا وہ اہم ماخذ ہے جسے اب تک پوری طرح سے کھنگالا نہیں گيا۔
یوں تو ہمارا جسم کوئی میدان جنگ نہیں لگتا ہے لیکن اگر باریکی سے دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ جسم میں پائے جانے والے مختلف طرح کے جرثومے خوراک اور اپنی جگہ حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے سے برسرِپیکار رہتے ہیں۔ اپنی بقا کے لیے وہ جو ایک طویل وقت سے ہتھیار استعمال کرتے رہے ہیں ان میں سے اینٹی بایوٹک بھی ہے۔
انسانوں کی ناک میں جو جرثومے سب سے زیادہ حملہ آور ہوتے ہیں ان میں سے دو سٹیفائیلوکس اور ایم آر ایس اے بہت اہم ہیں۔ تقریبا 30 فیصد لوگوں کی ناک میں یہ بیکٹیریا موجود ہوتے ہیں۔ سائنسدانوں نے دریافت کیا کہ اگر کسی کے نتھنوں میں مخالف بگ سٹیفائیلوکس لگڈنس ہے تو پھر دوسرا اس کا حریف بیکٹیریا ایس اوریئس نہیں ہوگا۔
اسی طریقے کے مطابق محقیقین کی ٹیم نے کئی طرح کے بیکٹیریوں کا استعمال کرکے دریافت کیا کہ بگز یا جرثومے اپنی جین تبدیل کر کے دوسرے سے کس طرح لڑتے رہتے ہیں اور ناک کے بالوں کے اندر زندہ رہتے ہیں۔ اسی طریقہ کار سے انھوں نے آخر میں اس اہم جین کو تلاش کر لیا جس میں ایک نئی اینٹی بائیوٹک دوا تیار کرنے کی ہدایات تھیں، انھوں نے اس کا نام لگڈن رکھا۔
اس کا چوہوں پر کامیاب تجربہ کیا گيا ہے۔ ریسرچ ٹیم میں شامل ڈاکٹر برن ہارڈ کزمر کا کہنا تھا: ’بعض جانورں میں تو مکمل طور پر اس طرح صاف ہوئے کہ ان میں ایک بھی بیکٹیریا باقی نہیں بچا۔ بعض میں کم ہوئے لیکن اب بھی ان میں کچھ اثرات باقی تھے۔‘ برسوں کے تجربات کے بعد اسے انسانوں پر آزمایا جا سکتا ہے لیکن اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ یہ دوا کامیاب ہی ہو۔