تحریر : پروفیسر رفعت مظہر ہم نے تو یہ سنا تھا کہ ججز خود نہیں بولتے، اُن کے فیصلے بولتے ہیں لیکن اب تو ماشاء اللہ ججز بھی بولتے اور خوب بولتے ہیں۔ ”با بارحمت” عصائے عدل اُٹھائے لوگوں کو سیدھا کرنے کے لیے میدانِ عمل میں ہیں۔ ہر روز کوئی نہ کوئی اَزخود نوٹس لیا جا رہا ہے جس کی بنا پر ادارے بھی متحرک ہوچکے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کی جیسے محترم چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے اندر سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی روح حلول کر گئی ہو۔ اُن کے دَور میں بھی عدلیہ ایسے ہی ”اِن ایکشن” تھی ،جیسے اب ہے۔ ایک منتخب وزیرِاعظم چودھری صاحب کے دِور میں گھر بھیجا گیا اور دوسرا میاں ثاقب نثار صاحب کے دَور میں۔ پیپلزپزرٹی کے وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی پر توہینِ عدالت کا الزام لگا جبکہ میاں نواز شریف پر اُس تنخواہ کا جو اُنہوں نے کبھی وصول کی ہی نہیں۔ اب میاں صاحب اور اُن کی بیٹی محترمہ مریم نواز جگہ جگہ پانچ رکنی بنچ کے فیصلے کے بخیے اُدھیڑ رہے ہیں اور عوام کی کثیر تعداد اُن کی ہاں میں ہاں بھی ملا رہی ہے۔
کچھ تجزیہ نگاروں کے مطابق میاں نواز شریف اور مریم نواز توہینِ عدالت کے مرتکب ہو رہے ہیںجس کا نوٹس لیا جانا ضروری۔ جڑانوالہ کے جلسۂ عام میںجو کچھ میاں صاحب اور مریم نواز نے کہا ،اُس پر توہینِ عدالت تو بنتی ہے، سوال مگر یہ ہے کہ کیا عزت و احترام صرف عدلیہ کے لیے ہی مخصوص ہے، کسی اور کے لیے نہیں؟۔ کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ سوائے عدلیہ کے کسی کی بھی عزتِ نفس مجروع نہیں ہوتی؟۔ کیا ڈیڑھ کروڑ ووٹوں سے منتخب شدہ وزیرِاعظم کو ”گاڈ فادر” اور ”سِسلین مافیا” کہنا اِس عہدے کی توہین نہیں؟۔ توہینِ عدالت بجااور عدلیہ کا احترام واجب لیکن کیا توہینِ پارلیمنٹ سے کوئی فرق نہیں پڑتا؟۔ جب ایک منتخب وزیرِاعظم کو گاڈ فادر اور سِسلین مافیا جیسی گالیاں دی جائیں گی تو یہ دراصل اُس شخص کی نہیں ،پارلیمنٹ کی توہین ہے جِس پر کوئی ایکشن ہوتا نظر نہیں آیا۔ حیرت ہے کہ عدلیہ اور عسکری ادارے تو شجرِممنوعہ ٹھہرے ،جن پر نیب ہاتھ ڈال سکتی ہے نہ کوئی دوسرا ادارہ لیکن وہ پارلیمنٹ جسے” اداروں کی ماں” کہا جاتا ہے اور جہاں آئین سازی ہوتی ہے، اُس کی جس کا جی چاہے ،توہین کردے ،کچھ فرق نہیں پڑتا۔ لیکن بدقسمتی تو یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں بیٹھے کچھ اراکین ہی پارلیمنٹ پر لعنت بھیج رہے ہیں۔ جب ایسی صورتِ حال ہو تو پھر کسی دوسرے کو کیا دوش دیں۔
اِس میں کوئی شک نہیں کہ عدلیہ کے فیصلوں کا احترام سب پر واجب اور ایسا ہو بھی رہا ہے ۔ عدلیہ کے فیصلے پریوسف رضا گیلانی وزیرِاعظم ہاؤس جانے کی بجائے عدالت سے سیدھے گھر چلے گئے اور پاناما کیس میںپانچ رکنی بنچ کے فیصلے پربھی فوری عمل درآمد ہوا ۔ میاں نوازشریف نے الیکشن کمیشن کے نوٹیفکیشن سے پہلے ہی وزارتِ عظمیٰ چھوڑ دی لیکن فیصلوں پر اعتراض تو ہر کسی کا حق ہے ۔ اب اگر پانچ رکنی بنچ کے فیصلے کی خامیاں اور خرابیاں اجاگر کی جا رہی ہیںاور اُس پر احتجاج کیا جا رہا ہے تو اِس میں توہینِ عدالت کہاں سے آگئی؟۔ عدلیہ سے دست بستہ عرض ہے کہ وہ فیصلے کرے، خلیل جبران، گاڈ فادراور سِسلین مافیا جیسی مثالیں دینا چھوڑ دے کیونکہ ایسی مثالوں سے فیصلوں پر تو کوئی اثر نہیں پڑتا، البتہ دِل آزاری ضرور ہوتی ہے جو احتجاج کا باعث بن جاتی ہے۔
محترم چیف جسٹس صاحب نے فرمایا کہ وہ نظامِ عدل کی درستی کے لیے دِن رات کام کریں گے اور اُنہوں نے اپنے گھر والوں کو بھی کہہ دیا ہے کہ وہ ایک سال تک صبر کریں۔ اُنہوں نے یہ بھی فرمایاکہ ڈیڑھ لاکھ وکلاء اُن کی فوج ہے اور جس کے پاس ایسی فوج ہو ،اُسے کسی کا کیا خوف۔ عرض ہے کہ یہ ایسی فوج ہے جو کسی کے بَس میں نہیں۔ یہ وہی فوج ہے جو ججز کی عدالتوں کو تالے لگاتی، عدالتوں کے شیشے توڑتی اور احتجاج کرتی نظر آتی ہے۔ یہ وہی فوج ہے جو سائلین اور پولیس کو ”پھینٹی” لگانے سے بھی گریز نہیں کرتی۔ عدلیہ بحالی تحریک کے بعد تو اِس فوج نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ کسی میں کیا جرأت جو اِس کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی دیکھ سکے۔ قانون کے اِن محافظوں کے ہاتھوں قانون کی دھجیاں بکھرنے کے نظارے ہم اکثر دیکھتے رہتے ہیں اِس لیے ایسی فوج کا کیا بھروسہ ۔آپ عدل کی عظمتوں کے لیے عصائے عدل گھماتے جائیے ،پوری قوم آپ کے ساتھ ہے۔
آپ نے آرٹیکل 62-1F میں نااہلی کی مدت کا تعین کرنے کے لیے لارجر بینک تشکیل دے کر بہت اچھا کیا۔ اس آرٹیکل میں بہرحال یہ سقم موجود ہے کہ اِس میں نااہلی کی مدت کا تعین نہیں کیا گیا جبکہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے کہیں زیادہ سخت آرٹیکل 63 میں نااہلی کی مدت 5 سال مقرر کی گئی ہے۔ نااہلی کی مدت کا تعین کرنے کے لیے حکم تو سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے دیا تھا لیکن اِس پر کوئی بنچ بنا ،نہ فیصلہ ہوا۔ اب یہ کیس پانچ رکنی بنچ کے سامنے ہے جس کی سربراہی محترم چیف جسٹس کے پاس ہے ،اِس لیے اُمید پیدا ہو چلی ہے کہ آرٹیکل 62-1F کا سقم دور ہو جائے گا۔
مزیدار بات یہ ہے کہ اِس معاملے پر نوازلیگ اور تحریکِ انصاف ،دونوں ایک صفحے پر ہیں کیونکہ معاملہ مشترکہ مفاد کا ہے۔ سابق وزیرِاعظم میں نوازشریف اور تحریکِ انصاف کے جہانگیر ترین، دونوں اِس آرٹیکل کی زَد میں آکر نااہل قرار دیئے جا چکے ہیں۔ اگر یہ نااہلی تاحیات ہو تو دونوں کا سیاسی کیریئر ختم ہو جاتاہے ۔اِس کا چیف صاحب کو خوب ادراک ہے، اِسی لیے اُنہوں نے اِس نااہلی کی زَد میں آنے والی تمام (13) درخواستوں کو نہ صرف اکٹھا کر دیا بلکہ میاں نوازشریف اور جہانگیر ترین کو بھی نوٹسز جاری کر دیئے۔ ہمیں اُمید ہے کہ نااہلی کی یہ مدت تاحیات نہیں ہوگی۔ ویسے بھی یہ آرٹیکل صادق وامین کو بنیاد بنا کر اہل یا نااہل قرار دیتا ہے۔ اگر کوئی شخص صادق وامین نہیں رہتاتو اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ تادَمِ مرگ ایسا ہی رہے گا۔ غلطی کی سزا ضرور ملنی چاہیے لیکن تاحیات نہیںکہ دَرِ توبہ ہروقت کھُلا رہتا ہے اور رَبّ ِ لَم یَزل خطا کاروں کی خطائیں معاف کرنے والا۔ اُسی رَبّ ِ کائینات کی نیابت ججز کے پاس ہے، ہمیں یقین ہے کہ وہ نائب اللہ ہونے کا ثبوت دیں گے۔
جس طرح چیف جسٹس صاحب نے آرٹیکل 62-1F پر لارجر بنچ تشکیل دے کر مستحسن قدم اُٹھایا ہے، اِسی طرح کوئی ایسا فورم بھی ہونا چاہیے جہاں سپریم کورٹ کے فیصلوں کے خلاف اپیل کی جاسکے۔ سبھی جانتے ہیں کہ نظرِثانی کی اپیل 99 فیصدمسترد ہی ہوتی ہے کیونکہ جِن ججز نے فیصلہ کیا سبھی جانتے ہیں کہ ہوتا ہے اُنہی کے بنچ میں یہ اپیل کی جاتی ہے۔ پاناما کیس چونکہ براہِ راست سپریم کورٹ نے سُنا ،اِس لیے اپیل کا حق بھی ختم ہوگیا۔ اگر یہ کیس لوئرکورٹس سے ہوتا ہوا سپریم کورٹ میں پہنچتا اور فیصلہ بھی وہی ہوتا جو پانچ رکنی بنچ نے دیا تو شاید اعتراض واحتجاج کی نوبت نہ آتی۔