تحریر: مسکان احزم ڈھلتی شام، دور دھندلکے آکاش پر غول در غول اپنے آشیانوں کی جانب بے تابی سے پنچھی اڑتے نظر آرہے تھے، قطار در قطار۔دن بھر کی تھکا دینے والی مسافت کے بعد آفتاب بھی آرام کرنے کی غرض سے دھیرے دھیرے سے رات کی رانی کی زلفوں کی چادر اوڑھ رہا تھا۔ دھندلی شام کے اس طرح پر پھیلاتے ہی میڈن لین سنہری قمقموں کی روشنی میں نہا گئی۔اس لین میں واقع ایک رولز نامی ریسٹورنٹ میں وہ پارٹ ٹائم جاب کیا کرتی تھی۔ لندن کے قدیم ریسٹورنٹس میں سے ایک رولز ریسٹورنٹ اسی لین میں چہل پہل کا باعث تھا ۔اور لوگوں کی توجہ کا مرکز بھی۔
اسی اسٹریٹ کے آخری کونے میں ایک بوڑھا جانسن گٹار بجایا کرتاتھا۔اور اس کی میٹھی میٹھی دھن پر ایک دس گیارہ سال کی بچی سارہ اپنی سحرطاری کردینے والی آواز میں خوبصورت گیت راہ گزاروں کی سماعتوں کی نذر کیا کرتی تھی۔یہی ان دونوں کا ذریعہ معاش تھا۔ہر وقت بہت سے لوگ یہاں ہجوم لگائے رکھتے تھے۔وہ کبھی اس کے ساتھ اپنے پسندیدہ گیت گاتے یا پھر اپنی پریشانیوں کو بھلانے کے لیے ان کی لےَ پر رقص کرتے ۔
سارہ کبھی محبت کے گاتی تو کبھی دو دلوں کے ملن کے اور بعض اوقات سنگدل محبوب کی بے وفائی کے قصے گانوں کے روپ میں پیش کرتی۔
ماریہ بھی کبھی کبھی سارہ کے گانے سنتی تھی۔
آج بھی جب وہ ریسٹورنٹ سے اپنی سائیکل پر واپس آرہی تھی تو سارہ کی آواز میں اس کے پسندیدہ گانے نے پیڈلز چلاتے اس کے قدم روک دیے۔اس نے سائیکل ایک طرف دیوار کے ساتھ کھڑی کردی اور بلیک کلر کے گھٹنوں تک آتے کوٹ کی جیبوں میں ہاتھوں کوچھپائے بڑی توجہ سے گانا سننے لگی۔رات کے پونے ایک ہورہے تھے۔بہت سے لوگ ابھی بھی وہاں کھڑے تھے بھیڑ لگائے۔ We are talking away (ہم بول رہے ہیں دور) I don’t know what (میں نہیں جانتا کیا) I m to say, I’ll be say it anywhere (میں کہنا چاہتا ہوں اور میں کہوں گا چاہے کچھ بھی ہو)
Coffee Shop
کچھ لوگ کافی کے بھاپ اڑاتے پلاسٹک کے گلاس لیے کھڑے تھے جو انہوں نے اسی اسٹریٹ میں واقع ایک کافی شاپ سے لیے تھے۔ Today’s another day to find you (آج ایک اور دن ہے تمہیں ڈھونڈنے کے لیے) Shying away (شرماتے ہوئے دور ہوئے) I’ll be coming for your love, OK? (میں تمہارے پیار کے لیے آؤں گا ۔ٹھیک ہے؟)
رولز ریسٹورنٹ اب اپنے دروازے پر کلوز کا بورڈ لگا چکا تھا۔ Take on me,take me on (مجھے ساتھ لے اپنے،مجھے ساتھ لو)
بوڑھا جانسن نہایت خوبصورتی سے گٹار کی دھن سے وہاں کھڑے لوگوں کو مسحور کررہا تھا۔وہ ابھی تک نہیں تھکا تھا۔وقت اسے کبھی بھی نہیں تھکا سکتا تھا۔ I’ll be gone (میں چلا جاؤں گا)
کافی پینے والے ساتھ ساتھ ایک ہاتھ سے چٹکیاں بھی بجا رہے تھے۔پریشانیوں کو بھلا کر صرف سارہ کی آواز میں کھو کر۔ In a day or two (ایک یا دودن میں)
بوڑھا جانسن بھی گٹار بجا رہا تھا خود کو بھلا کر صرف اپنے گٹار کی دھن میں کھو کر۔ Oh,the things that you say (او ،جو باتیں تم نے کہیں)
ان لائنز پہ ماریہ کے لب بھی ہلنے لگے۔ Is it life or… (کیا یہ زندگی ہے یا)
ہجوم میں سے کچھ لوگ جاچکے تھے۔شائد نیند کی چادر اوڑھ کر سونے۔ Just a play my worries away (صرف میری مشکلات کو دور کرنے کا طریقہ )
سردی کافی حد تک بڑھ چکی تھی۔شائد اپنا اثر دکھانے۔ You’re all the things, I’ve got to (تم وہ سب کچھ ہو جو میرے پاس ہے)
مگر ماریہ کو فرق نہیں پڑ رہا تھا وہ تو ابھی بھی مگن تھی انہیں لائنز میں۔ Remember (یاد رکھنا) You’re shying away (شرماتے ہوئے دور ہوئے)
بچی کی آواز جادو جگا رہی تھی۔پورا لندن خاموش ہوچکا تھا صرف سارہ کی آواز کو سننے کے لیے۔ I’ll be coming for you anyway (میں پھر بھی تمہارے پاس آؤں گا)
اس کی آواز کافی تھی کسی کوبھی اپنی طرف کھینچنے کے لیے۔ Take on me,take me on (مجھے ساتھ لو اپنے،مجھے ساتھ لو)
کسی کو بھی اپنے ساتھ لینے کے لیے۔ I’ll be gone (میں چلا جاؤں گا) In a day or two (ایک یا دودن میں) In a day or two (ایک یادو دن میں)
Clapping
آواز مدھم ہوتے ہوئے اب ختم ہوچکی تھی۔اب وہاں آواز تھی تو صرف سننے والوں کی تالیوں کے۔جو اب اس بچی کوخراجِ تحسین پیش کررہے تھے۔اور اس کے دل میں سراہے جانے کی خوشی کا سمندر آنکھ کے راستے چھلک پڑا تھا۔یہ لندن کے باسی ہوتے ہی ایسے ہیں۔چھوٹی چھوٹی باتوں پر ان کی آنکھیں چھلکنے کے لیے بے تاب رہتی ہیں۔وہ اب اچھل رہی تھی ۔مارے خوشی سے چیخ رہی تھی۔
لندن کی سنہری روشنیاں صرف اس کی خوشی کو دیکھنے کے لیے جگمگا رہی تھیں۔ماریہ کی آنکھوں کے سامنے کا منظر بھی آنسوؤں کی بارش سے بھیگ گیاتھا۔
اس نے اپنی کوٹ میں سے چند سکے نکال کر بوڑھے جانسن کے قریب پڑے نیلے رنگ کے باکس میں ڈال دیے۔بوڑھا جانسن اور سارہ اپنا سامان سمیٹنے میں مگن ہوگئے تھے۔شائد وہ بھی جانے لگے تھے واپس۔
ماریہ نے دیوار کے ساتھ کھڑی کی گئی سائیکل پر سوار ہوکر گھر جانے کی راہ لی۔
(۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
اُس رات سارہ کا گانا سنتے ہوئے وہ خلافِ معمول بہت زیادہ لیٹ ہوچکی تھی۔ہر طرف اسٹریٹس سنسان نظر آرہی تھیں ۔وہ سائیکل کو بہت تیزی سے چلا رہی تھی کیونکہ وہ گھر جلد از جلد پہنچنا چاہتی تھی۔اس کی ماں اسے کئی بار فون کرچکی تھی۔سارا لندن نیند کی آغوش میں سورہا تھا۔اسٹریٹس میں صرف گھروں کے باہر لگی لائٹس ہی روشن تھیں۔کچھ ہی فاصلہ طے کرنے کے بعد اسے پیچھے سے کسی سائیکل کے آنے کی آواز محسوس ہوئی تھی۔اُس نے رک کر دیکھنے کی بجائے سائیکل کو مزید سپیڈ سے چلانا شروع کردیا۔وہ اتنی ہی بہادر تھی۔اس کا سانس اب پھولنے لگا تھا مگر اس نے اسپیڈ کو ذرا بھی کم نہ کیا۔
گلی کا کونہ مڑتے ہی اس کی سائیکل کے اگلے پہیے کے نیچے ناجانے کونسی چیز آئی کہ سائیکل جھٹکے سے نیچے گر گئی۔اللہ۔اس کمبخت کو بھی ابھی ہی گرنا تھا۔اب ماریہ نیچے تھی اور سائیکل اس کے اوپر۔پیچھا کرتی سائیکل گلی کے کونے کے پیچھے ہی رک گئی تھی۔اس سے پہلے اسے کچھ اور سوجھتا ،دو اٹھارہ انیس سال کے لڑکے نہایت پھرتی سے اس کے قریب آئے۔شائد اس کی مدد کے لیے۔مگر یہ صرف مادام کا ہی خیال تھا۔انہوں نے اس کے اوپر سے سائیکل ہٹائی اور جھٹ سے اس کی پاکٹس ٹٹولنے لگے۔
اب اس کم عقل کو سارا معاملہ سمجھ آیا تھا.اس کی سائیکل کے نیچے آنے والا پتھر انہیں بدتمیز لڑکوں نے رکھا تھا اور پیچھے سے آنے والی سائیکل بھی ان کی ہی تھی.مگر یہ بھی صرف ہماری مادام کا ہی خیال تھا.کیونکہ وہ لڑکے تو سامنے سے آۓ تھے.صورتحال کے سمجھ آتے ہی وہ جھٹ سے کھڑی ہوگئی.اب تماشہ دیکھنے سے تو رہی.اس نے اپنی سائیکل اٹھانے کی کوشش کی لیکن اس سے پہلے ہی ایک لڑکے نے اسے بازو سے کھینچ کر پیچھے کی جانب دھکا دیا اور اس پر گھونسوں کی بارش شروع کردیا۔
Help
اس کے “ہیلپ” پکارنے پر گلی کے کونے سے کوئی اس کی طرف بھاگ کر آتا ہوا محسوس ہوا.شائد یہ ان کا تیسرا دوست تھا.مگریہ بھی اس کا وہم تھا.وہ ایسا ہی سوچا کرتی تھی.وہ بری طرح زخمی ہوچکی تھی.اس تیسرے شخص نے آتے ہی پاس کھڑے لڑکے کو ایک زبردست گھونسہ رسید کیا جس کی وجہ سے اس کی ناک سے خون کا فوارہ چھوٹ پڑا.اور بڑی تیزی سے ماریہ پہ گھونسے برساتے لڑکے کو کمر سے پکڑکر اس کا منہ اپنی طرف کیا اور یکے بعد دیگرے تین مکے اس کے منہ پر رسید کردیے۔۔
وہ دونوں اس حملے سے بوکھلا گئے تھے لیکن لمحہ ہی لگا تھا انہیں سنبھلنے میں….وہ بہت چست و چالاک تھے.ان دونوں نے اب اس پر حملہ کردیا تھا.مگر وہ بھی چٹان کی مانند تھا.اس لڑکی کے لیے تو وہ سارے لندن سے ایک ہی وقت میں لڑسکتا تھا. آخر جیت اسی شخص کی ہوئی.ان لڑکوں کو وہاں سے بھاگنا پڑا.پھر وہ ماریہ کی جانب لپکا جوسڑک پر نیم بے ہوش پڑی تھی.اس کی ناک سے اور نچلے ہونٹ سے خون بہہ رہا تھا۔
اس نے ماریہ کا چہرہ اپنی گود میں رکھا اور نرمی سے تھپکاتے ہوۓ اسے ہوش میں لانے لگا.وہ نیم وا آنکھوں سے اس کا چہرہ نہیں دیکھ پائی تھی کیونکہ اس نے کوٹ کے کالر کو کھڑا کرکے اس میں چہرہ چھپایا ہوا تھا.ہاں مگر اس کی آنکھیں اس لمحے اسے ضرور شناسا سی لگی تھیں.مدھم سی لائٹ میں بھی وہ نیلے پانیوں کے جیسے چمک رہی تھیں.وہ بس اتنا ہی دیکھ پائی تھی.وہ اسے کچھ کہہ رہا تھا مگر اسے کچھ بھی سنائی نہیں دے رہا تھا.شائد وہ اپنے ہوش کھو رہی تھی.سر ابھی بھی اسی کی گود میں تھا اور چہرہ اس کے ہاتھوں میں. اس کے بعد کیا ہوا وہ نہیں جانتی تھی.لیکن صبح اس کی آنکھ اپنے ہی کمرے میں کھلی تھی.اس کے جسم سے درد کی ٹھیسیں اٹھ رہی تھیں۔
پورا جسم ٹوٹا ہوا محسوس ہورہا تھا.اس کی ماں اس کے ساتھ ہی بستر پر سورہی تھی.اس نے کچھ یادکرنے کی کوشش کی لیکن بڑھتے درد کے سوا کچھ سجھائی نہیں دیا اور وہ کراہتی ہی رہ گئی. اس کے کراہنے سے ہی اس کی ماں کی آنکھ کھلی تھی.وہ اپنی بیٹی کی جانب بڑی بے تابی سے لپکی. ماں اللہ تعالی کی سب سے بڑی نعمت ہوتی ہے.اگر مجھ سے پوچھا جاۓ کہ محبت اگر کوئی وجود اپناتی تو وہ کونسا ہوتا¿¿ تو میں بنا سوچے سمجھے کہتی کہ اگر محبت کوئی وجود رکھتی تو وہ ماں کے روپ میں نظر آتی. کتنی بے تابی تھی اس وقت اس ماں کی آنکھوں میں جو ساون کے مہینے میں برسنے والی برسات کی مانند نظر آرہی تھیں۔
“میں ٹھیک ہوں ماں.” وہ اپنی ماں کو تسلی دینے لگی جو اس وقت بہت پریشان نظر آہی تھی. “بس یہ معمولی سی چوٹیں ہیں.بہت جلد ٹھیک ہوجائیں گی.” اس نےمسکراتے ہوۓ کہا.اور اس کی ماں دیوانہ وار اس کے ماتھے کو چوم رہی تھی. وہ کتنی خوش قسمت تھی کہ اس کے پاس دنیا کی سب سے بڑی نعمت موجود تھی.اس نعمت کے لیے اگر انسان اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ سجدہ میں گزار دے تو بھی شکر ادا نہ کر سکے.اولاد کی وجہ سے گیلے ہونے والے بسترپر ماں کی گزرنے والی ایک رات کے مول کے لیے دنیا جہاں کے خزانے کم پڑجائیں۔
مائیں تو انمول ہوتی ہیں.کسی بہت ہی قیمتی موتی کی طرح. (………………………..)
Mother
وہ پچھلے چار دن سے گھر میں ہی پڑی ہوئی تھی.اس نے یونیورسٹی سے آف لے لیا تھا اور ریسٹورنٹ کے مینیجر سے بات کرلی تھی.ان لڑکوں کے گھونسوں نے اس کے خوبصورت منہ کو فٹبال بنا دیا تھا.سوزش ﺫرا کم ہوئی تو اسے اس مسیحا کا خیال آیا. “ماں”…….. ” ماں”……. وہ ماں کو پکارتی ہوئی نیچے کیچن میں آگئی.جہاں اس کی ماں کچھ پکانےمیں مصروف تھی. “ہاں,میری جان” اس کی ماں اسے یوں دیکھ کر بہار میں سر اٹھانے والی کسی کونپل کی طرح کھل ہی تو گئی تھی. “کیا بنا رہی ہو ماں¿” وہ پاس والی شیلف پہ ٹانگیں لٹکاتے ہوۓ بیٹھ گئی. “اپنی پیاری سی بیٹی کے لیے میکرونی” اس کی ماں نے اس کے رخسار کونرمی سے چھوتے ہوۓ کہا. “اچھا ماں ایک بات تو بتائیں” وہ شیلف سے اتر کر اپنی ماں کے پاس آکر کھڑی ہوگئی تھی.وہ رازداری کی باتیں یونہی کیا کرتی تھی۔
“ہاں پوچھو” اس کی ماں نے چولہے کی آنچ کو دھیما کردیا. “ماں اس رات مجھے گھر پہ کون چھوڑنے آیا تھا¿” اس نے فریج سے سیب نکالتے ہوۓ پوچھا.اس کی ماں کا چمچہ چلاتا ہاتھ پل بھر کو رکا اور پھر چلنے لگا. “کس رات کی بات کررہی ہو¿” “جس رات مجھے چوٹیں لگی تھیں.میں تو بے ہوش ہوگئی تھی ناں.تو کوئی تو مجھے گھر پہ چھوڑنے آیا ہوگا¿” اس نے سیب کی ایک بائیٹ لیتے ہوۓ پوچھا. “اواچھا…..اس رات….” اس کی ماں نے کچھ یاد کرتے ہوۓ کہا. “میں تو ہال میں تمہارا انتظار کررہی تھی کہ اچانک ﮈوربیل بجی.میں سمجھی کہ شاید تم آئی ہو.اس لیے دروازہ کھول دیا مگر وہاں تو کوئی بھی نہیں تھا سواۓ تمہارے بےہوش وجود کے اور تمہاری سائیکل کے.میں تو خود ابھی تک پریشان ہوں کہ اس اجنبی لندن میں کون تھا وہ جو مسیحا بن کر آیا تھا” … اس کی ماں اب سبزیوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹنے لگی.اور وہ گہری سوچ میں ﮈوب گئی. “لیکن ماں مجھے تو کوئی اینجل ہی لگتا ہے یاپھر کوئی سپر ہیرو جو میرے لیے ان بدتمیز لڑکوں سے لڑا اور اڑاتے ہوۓ مجھے یہاں لے آیا اور پھر غائب ہوگیا.” سوچ کے سمندر سے نکلتے ہی مادام نے کیا بات کی تھی. اس کی اس بات پر اس کی ماں کی ہنسی بے اختیار چھوٹ پڑی. “پگلی” اس کا ماں نے اس کے سر پر پیار سے ایک لگاتے ہوۓ کہا اور وہ مصنوعی ناراضگی سے اپنے بال ٹھیک کرنے لگی.(اس نے غلط ہی کیا کہا تھا ). (…………………………………)۔
Hero
چار پانچ دن آرام کرنے کے بعد اسے مجبوری کے طور پر ریسٹورنٹ جانا پڑا.وہ معمول پر آچکی تھی.لیکن ایک سوال اسے ابھی تک تنگ کررہا تھا کہ وہ سپر ہیرو کون تھا¿ اسے افسوس ہورہا تھا کہ وہ اس کا چہرہ کیوں نہیں دیکھ پائی تھی.لیکن وہ آنکھیں جو مدھم روشنیوں میں بھی نیلے پانیوں کے جیسی نظر آرہی تھیں. ﺫہن میں نیلی آنکھوں کا خیال آتے ہی وہ اچھل پڑی تھی.اس کی اس حرکت پہ کچھ ویٹرز وہاں رک کر اسے دیکھنے لگے.یہی لندن کے باسیوں کی خوبصورتی تھی کہ وہ خوشی کے اظہار کے لیے موقع اور جگہ نہیں دیکھتے تھے. لیکن اگلے ہی لمحے ساری خوشی ہوا بن کر اڑ گئی اسی سوچ پر کہ اس نے ان آنکھوں کو کدھر دیکھا تھا¿ ایک نیا سوال اسے تنگ کرنے کے لیے جنم لے چکا تھا.اب اس کا ﺫہن ان نیلی آنکھوں کے بھنور میں پھنس چکا تھا. (…………………………………..)
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کئی گزرے ہوۓ منظر کچھ ایسے ایک لمحے کو پلٹتے ہیں کہ ان کے ساتھ وابستہ سبھی کچھ لوٹ آتا ہے حقیقت اور گماں کی سرحدیں کچھ اس طرح آپس میں ملتی ہیں کہ دریا ساتھ چلتا ہے, کناراچھوٹ جاتا ہے
میری جاں آج اس لمحے میرے چاروں طرف تم ہو
میرے حصے میں جتنا آسماں تھا اس کی وسعت سے تمہیں نکلے بہت عرصہ ہوا لیکن میں اب بھی ہرستارے میں تمہیں موجود پاتا ہوں کچھ ایسے دیکھ سکتا ہوں کہ جیسے وصل کے اس آخری لمحے میں دیکھا تھا جہاں چاروں طرف ہم تھے ہمارے خواب تھے اور روشنی کا ایک دریا تھا وہ دریا جس میں بہتے وقت کی کشتی کچھ ایسے ایک لمحے کو ہمارے ساتھ ٹھہری تھی کسی دیوار پر لٹکی تصویر ہوجیسے
وہی لمحہ,اسی صورت ہمارے درمیاں جاناں, پھر ایسے آکے ٹھہرا ہے کہ ہرجانب ہمی ہم ہیں ہمارے خواب ہیں اور روشنی کا ایک دریا ہے تمہارے وصل کی خوشبو میں بھیگی رات ہے,تم ہو زمیں سے آسمان تک رنگ کی برسات ہے,تم ہو مگر شعبدہ تو, اس ستم گر رات سے اب تک جدائی کی ہر ایک برسی مجھے یونہی دکھاتی ہے “میرے چاروں طرف تم ہو” کہاں گم ہو کہاں گم ہو
Moment
لندن کی سرگوشی کرتی ہوئی دھند ہو منظر کو دھندلا کررہی تھی بالکل اسی طرح جسطرح کبھی اس کی قسمت نے اس کی آنکھوں کے سامنے والے ہر منظر کو ,ہر نقش کو دھندلا کردیا تھا۔
کسی اپنے, بہت ہی پیارے چہرے کے نقوش کو مدھم کیا تھا۔
وہ لمحات کیسے بھلاۓ جاسکتے ہیں جن میں وہ جان سے پیارا جدا ہوا تھا. (جاری ہے)……۔۔